وقت کی قید سے آزاد کرانے آئے
وقت کی قید سے آزاد کرانے آئے
آخری وقت مجھے منہ ہی دکھانے آئے
ان دنوں میری طبیعت میں ہے مدہوشی سی
اس سے کہہ دو کہ مرا درد جگانے آئے
میں نے جب پیار کی دولت سے نوازا ہے اسے
وہ بھی دو بول محبت کے سنانے آئے
عمر بھر ساتھ نبھانے کو کہا ہے کس نے
وہ مرے ساتھ بس اک شام منانے آئے
دل کو دریا کو بڑی دیر ہوئی خشک ہوئے
کوئی بادل ہی مری پیاس بجھانے آئے
جب سے وہ روٹھ گیا شاد یہی سوچتا ہوں
کب مرا چاند مرے پاس نہ جانے آئے