خلقت شہر تو کہنے کو فسانے مانگے
خلقت شہر تو کہنے کو فسانے مانگے
میری رسوائی کے کیا کیا نہ بہانے مانگے
میں اسے روز نئے زخم دکھاؤں پھر بھی
دل بے مہر وہی درد پرانے مانگے
ایک آوارۂ منزل سے محبت کر کے
تو بڑے شہر میں رہنے کو ٹھکانے مانگے
یاد ماضی کے سوا پاس مرے کچھ بھی نہیں
تو میری جان وہ پہلے سے زمانے مانگے
رات بھر جاگتے رہنا تو نصیب اپنا تھا
سونے والا تو کوئی خواب سہانے مانگے
دل ناداں سے قناعت کی توقع ہے کسے
پا لیا ان کو تو کیا اور نہ جانے مانگے