Badr Jameel

بدر جمیل

  • 1946

بدر جمیل کی غزل

    وہ بیکلی ہے کوئی راستہ سجھائی نہ دے

    وہ بیکلی ہے کوئی راستہ سجھائی نہ دے وہ شور ہے کہ خود اپنی صدا سنائی نہ دے میں کیا کروں گا بھلا جا کے اس بلندی پر جہاں سے میرا ہی سایہ مجھے دکھائی نہ دے جو مجھ کو درد کے اندھے کنویں میں پھینک آئے مرے وجود کو وہ کرب آشنائی نہ دے نہ جانے کون ہے مجھ میں جو ہر گھڑی مجھ کو کوئی سجھاؤ سا ...

    مزید پڑھیے

    سوز جنوں نے وقت سے ڈرنے نہیں دیا

    سوز جنوں نے وقت سے ڈرنے نہیں دیا آسان راستوں سے گزرنے نہیں دیا ساحل پہ جا اترنا تو لمحوں کی بات تھی ایک بے دلی تھی جس نے ابھرنے نہیں دیا گھیرا کچھ اس طرح سے غم روزگار نے خود اپنے آپ میں بھی اترنے نہیں دیا اونچی حویلیوں نے بھی کیا ظلم ڈھائے ہیں سورج بھی آنگنوں میں اترنے نہیں ...

    مزید پڑھیے

    خوش قامتی کے زعم میں دانائی جائے گی

    خوش قامتی کے زعم میں دانائی جائے گی سورج نہ دیکھ آنکھ کی بینائی جائے گی یا رب کوئی فرشتہ جسے دوست کہہ سکوں انسان کی تلاش میں بینائی جائے گی دو چار جھوٹ بول کے آئی بلا کو ٹال سچ بولنے کے جرم میں گویائی جائے گی نسلی رقابتوں میں گئے اپنے بام و در اب آپسی نفاق میں انگنائی جائے ...

    مزید پڑھیے

    پہلے تو کبھی وقت یہ ہم پر نہیں آیا

    پہلے تو کبھی وقت یہ ہم پر نہیں آیا ہم چلتے رہے چلتے رہے گھر نہیں آیا سورج کی ہے بے خبری کہ موسم کی شرارت کیوں سایہ مرے قد کے برابر نہیں آیا کیا لوگ تھے بستی میں کہ جلتی رہی بستی اور گھر سے نکل کر کوئی باہر نہیں آیا کیوں ولولے محدود ہوئے لفظ و بیاں تک کیوں دار تلک کوئی قد آور نہیں ...

    مزید پڑھیے

    پرکھوں کی بو باس لیے پھرتا ہوں

    پرکھوں کی بو باس لیے پھرتا ہوں مٹھی بھر احساس لیے پھرتا ہوں چاروں اور سمندر اور میں پل پل ایک انجانی پیاس لیے پھرتا ہوں رام کو تو بن باس لیے پھرتا تھا میں خود میں بن باس لیے پھرتا ہوں محفل محفل خیمہ زن مایوسی منزل منزل آس لیے پھرتا ہوں ہر موسم کا کرب چھپا ہے مجھ میں میں ہر رت ...

    مزید پڑھیے