خوش قامتی کے زعم میں دانائی جائے گی
خوش قامتی کے زعم میں دانائی جائے گی
سورج نہ دیکھ آنکھ کی بینائی جائے گی
یا رب کوئی فرشتہ جسے دوست کہہ سکوں
انسان کی تلاش میں بینائی جائے گی
دو چار جھوٹ بول کے آئی بلا کو ٹال
سچ بولنے کے جرم میں گویائی جائے گی
نسلی رقابتوں میں گئے اپنے بام و در
اب آپسی نفاق میں انگنائی جائے گی
زخموں سے ہے جمیلؔ مذاق سخن میں جاں
یہ بھر گئے تو پھر سخن آرائی جائے گی