پہلے تو کبھی وقت یہ ہم پر نہیں آیا

پہلے تو کبھی وقت یہ ہم پر نہیں آیا
ہم چلتے رہے چلتے رہے گھر نہیں آیا


سورج کی ہے بے خبری کہ موسم کی شرارت
کیوں سایہ مرے قد کے برابر نہیں آیا


کیا لوگ تھے بستی میں کہ جلتی رہی بستی
اور گھر سے نکل کر کوئی باہر نہیں آیا


کیوں ولولے محدود ہوئے لفظ و بیاں تک
کیوں دار تلک کوئی قد آور نہیں آیا


اس بار بھی کیا یوں ہی گزر جائے گا ساون
اس بار بھی تو پیڑ پہ پتھر نہیں آیا