وہ بیکلی ہے کوئی راستہ سجھائی نہ دے
وہ بیکلی ہے کوئی راستہ سجھائی نہ دے
وہ شور ہے کہ خود اپنی صدا سنائی نہ دے
میں کیا کروں گا بھلا جا کے اس بلندی پر
جہاں سے میرا ہی سایہ مجھے دکھائی نہ دے
جو مجھ کو درد کے اندھے کنویں میں پھینک آئے
مرے وجود کو وہ کرب آشنائی نہ دے
نہ جانے کون ہے مجھ میں جو ہر گھڑی مجھ کو
کوئی سجھاؤ سا دیتا رہے دکھائی نہ دے
جمیلؔ وقت سے آگے نکل گئے ہم لوگ
زمانہ اب ہمیں الزام نارسائی نہ دے