Azra Abbas

عذرا عباس

ممتاز پاکستانی شاعرہ، اپنی نظموں کے لئے معروف

One of the leading Pakistani women poets.

عذرا عباس کی نظم

    اس زندگی کے بدلے

    اس زندگی کے بدلے مجھے بنا دیا جاتا بادلوں سے گرتی ہوئی ایک بوند کسی سوکھی گھاس کے گٹھر پر پڑا ہوا ایک تنکا یا بہتے ہوئے پانی کے آس پاس جمی ہوئی کائی اس زندگی کے بدلے مجھے بنا دیا جاتا ایک رات سے دوسری رات تک پھیلا ہوا بے مزا ذائقہ یا وہ دانہ جس کسی پرندے کی چونچ سے گر رہا ہو اس ...

    مزید پڑھیے

    جیت کس کی ہوگی

    کسی کونے سے نکلتا ہے ایک خوف اور رقص کرنے لگتا ہے میرے سامنے جیسے کوئی ماہر رقاص بتا رہا ہو بھاؤ تاؤ یا کوئی گہرا راز زندگی اور موت کا پھر پردہ گرتا ہے جانے کب خوف میرے سینے پر چڑھ آتا ہے میں چلانے لگتی ہوں جاگتے اور سوتے میں لڑتی ہی رہتی ہوں اس جنگ میں جیت کس کی ہوگی

    مزید پڑھیے

    لفظوں کا زوال

    اب آ گیا لفظوں کے زوال کا وقت بہت شوریدہ سر دلوں کو کچلتے ہوئے سروں کو روندتے ہوئے نکلے تھے اب خاموشی اور سناٹے کے درمیان یہ ٹکر ٹکر دیکھیں گے جب ایک دوسرے سے ٹکراتی چیزوں کی آوازیں بھی ان کا ساتھ نہیں دیں گی بہے گا پانی ایک موج بھی نہیں دے گی انہیں جواب سب دھکیل دیں گے ...

    مزید پڑھیے

    سر کٹے

    ہمارے اختیارات غصب کر لیے گئے ہیں ان سر کٹے بدن والوں نے انھوں نے بڑی دلجمعی سے اپنے سر اپنے اپنے دھڑ سے الگ کروا لیے تاکہ وہ پہچانے نہ جائیں انھوں نے ہمیں منڈیروں پر بٹھا دیا ہے تاکہ جب ہوا تیز چلے تو ہم دوسری طرف بنی کھائی میں گر پڑیں کبھی نہ اٹھنے کے لیے وہ سمجھتے ہیں وہ پہچانے ...

    مزید پڑھیے

    اعتراف

    یہ سب داستانوں میں لکھا ہے یا فرضی کہانیوں میں تم نے مجھ سے محبت کی ہے تم روز صبح سے شام تک یہ ایک لفظ دہراتے ہو اور مجھے اپنی محبت کا یقین دلاتے ہو لیکن مجھے معلوم ہے اس لفظ کے کیا معنی ہیں جب تم اس کے معنی بتا چکو گے تو یہ لفظ تمہارے گلے میں سوکھے تھوک کی طرح چپک جائے گا اور میرے ...

    مزید پڑھیے

    ٹکڑوں میں بٹی ہوئی زندگی

    پہلے ہم زندگی کو ٹکڑوں میں تقسیم کرتے ہیں اور پھر ان ٹکڑوں کو رکھ کر بھول جاتے ہیں یہ بھول ہمارے جسم کو ایک جال میں لپیٹ لیتی ہے کون سا ٹکڑا کہاں رکھا تھا جس کی ضرورت پڑتی ہے وقت پر وہ نہیں ملتا ہم ساری زندگی ضرورت کے وقت اپنی زندگی کے ٹکڑے تلاش کرتے رہتے ہیں لیکن بے ترتیبی اور ...

    مزید پڑھیے

    ایک نظم لکھنا مشکل ہے

    اسے وہی جانتا ہے جس نے ایک بچہ جنا ہو یا اسے جنم دینے سے پہلے بہا دیا ہو دونوں دکھ ایک ہی ہیں جیسے تمہیں گرم گرم جلتے ہوئے لوہے سے داغا جا رہا ہو یا تمہارے جسم کو گودا جا رہا ہو ایک سرے سے دوسرے سرے تک اندھیرے اور سناٹے میں دروازہ ہو نہ کوئی شگاف کہ آواز باہر جا سکے بس جیسے ایک کند ...

    مزید پڑھیے

    آنسوؤں کو بہنے کی لت لگ گئی ہے

    کچھ نہیں دیکھتے جن آنکھوں سے وہ بہہ رہے ہیں وہ اس وقت بھیڑ میں ہیں یا سناٹے میں کس کس کا وہ آنکھیں پیچھا کر رہی ہیں کیا وہ گلی کا بچہ جو جلتی دوپہر میں ننگے پاؤں چل رہا ہے یا وہ بوڑھے ہاتھ جو بھاری سیمنٹ کی بوری اپنی پیٹھ پر لادنے کی کوشش میں مبتلا ہیں کیوں دیکھتی ہیں آنکھیں اوٹ ...

    مزید پڑھیے

    آواز گرتی ہے

    ایک آواز گرتی ہے زمین پر پھر پرسا دیتی ہیں عورتیں پرسا دیتے ہیں مرد پرسا دیتے ہیں بچے جو بیٹھے ہیں خاک پر رات کو دن سے ملاتے ہیں دن کو رات سے ایک آواز پھر گرتی ہے زمین پر اب پرسا دینے والا کوئی نہیں سوائے اس خاک کے جس پر وہ بیٹھے تھے

    مزید پڑھیے

    ہاتھ کھول دیے جائیں

    میرے ہاتھ کھول دیے جائیں تو میں اس دنیا کی دیواروں کو اپنے خوابوں کی لکیروں سے سیاہ کر دوں اور قہر کی بارش برساؤں اور اس دنیا کو اپنی ہتھیلی پر رکھ کر مسل دوں میرا دامن خوابوں کے اندھیرے میں پھیلا ہوا ہے میرے خواب پھانسی پر چڑھا دیے گئے میرا بچہ میرے پیٹ سے چھین لیا گیا میرا گھر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 5