Aziz Nabeel

عزیز نبیل

قطر میں مقیم معروف شاعر

Popular poet based in Qatar

عزیز نبیل کی غزل

    معجزے کا در کھلا اور اک عصا روشن ہوا

    معجزے کا در کھلا اور اک عصا روشن ہوا دور گہرے پانیوں میں راستہ روشن ہوا جانے کتنے سورجوں کا فیض حاصل ہے اسے اس مکمل روشنی سے جو ملا روشن ہوا آنکھ والوں نے چرا لی روشنی ساری تو پھر ایک اندھے کی ہتھیلی پر دیا روشن ہوا ایک وحشت دائرہ در دائرہ پھرتی رہی ایک صحرا سلسلہ در سلسلہ ...

    مزید پڑھیے

    زمیں کی آنکھ سے منظر کوئی اتارتے ہیں

    زمیں کی آنکھ سے منظر کوئی اتارتے ہیں ہوا کا عکس چلو ریت پر ابھارتے ہیں خود اپنے ہونے کا انکار کر چکے ہیں ہم ہماری زندگی اب دوسرے گزارتے ہیں تمہاری جیت کا تم کو یقین آ جائے سو ہم تمہارے لیے بار بار ہارتے ہیں تلاش ہے ہمیں کچھ گمشدہ بہاروں کی گزر چکے ہیں جو موسم انہیں پکارتے ...

    مزید پڑھیے

    باتوں میں بہت گہرائی ہے، لہجے میں بڑی سچائی ہے

    باتوں میں بہت گہرائی ہے، لہجے میں بڑی سچائی ہے سب باتیں پھولوں جیسی ہیں، آواز مدھر شہنائی ہے یہ بوندیں پہلی بارش کی، یہ سوندھی خوشبو ماٹی کی اک کوئل باغ میں کوکی ہے، آواز یہاں تک آئی ہے بدنام بہت ہے راہگزر، خاموش نظر، بے چین سفر اب گرد جمی ہے آنکھوں میں اور دور تلک رسوائی ...

    مزید پڑھیے

    جس طرف چاہوں پہنچ جاؤں مسافت کیسی

    جس طرف چاہوں پہنچ جاؤں مسافت کیسی میں تو آواز ہوں آواز کی ہجرت کیسی سننے والوں کی سماعت گئی گویائی بھی قصہ گو تو نے سنائی تھی حکایت کیسی ہم جنوں والے ہیں ہم سے کبھی پوچھو پیارے دشت کہتے ہیں کسے دشت کی وحشت کیسی آپ کے خوف سے کچھ ہاتھ بڑھے ہیں لیکن دست مجبور کی سہمی ہوئی بیعت ...

    مزید پڑھیے

    یہ کس وحشت زدہ لمحے میں داخل ہو گئے ہیں

    یہ کس وحشت زدہ لمحے میں داخل ہو گئے ہیں ہم اپنے آپ کے مد مقابل ہو گئے ہیں کئی چہرے مری سوچوں سے زائل ہو گئے ہیں کئی لہجے مرے لہجے میں شامل ہو گئے ہیں خدا کے نام سے طوفان میں کشتی اتاری بھنور جتنے سمندر میں تھے، ساحل ہو گئے ہیں وہ کچھ پل جن کی ٹھنڈی چھاؤں میں تم ہو ہمارے وہی کچھ ...

    مزید پڑھیے

    اگرچہ ذہن کے کشکول سے چھلک رہے تھے

    اگرچہ ذہن کے کشکول سے چھلک رہے تھے خیال شعر میں ڈھلتے ہوئے جھجک رہے تھے کوئی جواب نہ سورج میں تھا نہ چاند کے پاس مرے سوال سر آسماں چمک رہے تھے نہ جانے کس کے قدم چومنے کی حسرت میں تمام راستے دل کی طرح دھڑک رہے تھے کسی سے ذہن جو ملتا تو گفتگو کرتے ہجوم شہر میں تنہا تھے ہم، بھٹک ...

    مزید پڑھیے

    صبح اور شام کے سب رنگ ہٹائے ہوئے ہیں

    صبح اور شام کے سب رنگ ہٹائے ہوئے ہیں اپنی آواز کو تصویر بنائے ہوئے ہیں اب ہمیں چاک پہ رکھ یا خس و خاشاک سمجھ کوزہ گر ہم تری آواز پہ آئے ہوئے ہیں ہم نہیں اتنے تہی چشم کہ رو بھی نہ سکیں چند آنسو ابھی آنکھوں میں بچائے ہوئے ہیں ہم نے خود اپنی عدالت سے سزا پائی ہے زخم جتنے بھی ہیں ...

    مزید پڑھیے

    خیال و خواب کا سارا دھواں اتر چکا ہے

    خیال و خواب کا سارا دھواں اتر چکا ہے یقیں کے طاق میں سورج کوئی ٹھہر چکا ہے مجھے اٹھا کے سمندر میں پھینکنے والو یہ دیکھو ایک جزیرہ یہاں ابھر چکا ہے میں ایک نقش، جو اب تک نہ ہو سکا پورا وہ ایک رنگ، جو تصویر جاں میں بھر چکا ہے یہ کوئی اور ہی ہے مجھ میں جو جھلکتا ہے تمہیں تلاش ہے جس ...

    مزید پڑھیے

    دھوپ کے جاتے ہی مر جاؤں گا میں

    دھوپ کے جاتے ہی مر جاؤں گا میں ایک سایہ ہوں بکھر جاؤں گا میں اعتبار دوستی کا رنگ ہوں بے یقینی میں اتر جاؤں گا میں دن کا سارا زہر پی کر، آج پھر رات کے بستر پہ مر جاؤں گا میں پھر کبھی تم سے ملوں گا راستو! لوٹ کر فی الحال گھر جاؤں گا میں اس سے ملنے کی طلب میں آؤں گا اور بس، یوں ہی ...

    مزید پڑھیے

    سر صحرائے جاں ہم چاک دامانی بھی کرتے ہیں

    سر صحرائے جاں ہم چاک دامانی بھی کرتے ہیں ضرورت آ پڑے تو ریت کو پانی بھی کرتے ہیں کبھی دریا اٹھا لاتے ہیں اپنی ٹوٹی کشتی میں کبھی اک قطرۂ شبنم سے طغیانی بھی کرتے ہیں کبھی ایسا کہ آنکھوں میں نہیں رکھتے ہیں کوئی خواب کبھی یوں ہے کہ خوابوں کی فراوانی بھی کرتے ہیں ہمیشہ آپ کا ہر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4