یہ کس وحشت زدہ لمحے میں داخل ہو گئے ہیں
یہ کس وحشت زدہ لمحے میں داخل ہو گئے ہیں
ہم اپنے آپ کے مد مقابل ہو گئے ہیں
کئی چہرے مری سوچوں سے زائل ہو گئے ہیں
کئی لہجے مرے لہجے میں شامل ہو گئے ہیں
خدا کے نام سے طوفان میں کشتی اتاری
بھنور جتنے سمندر میں تھے، ساحل ہو گئے ہیں
وہ کچھ پل جن کی ٹھنڈی چھاؤں میں تم ہو ہمارے
وہی کچھ پل تو جیون بھر کا حاصل ہو گئے ہیں
الجھتے جا رہے ہیں جستجو کے پر مسلسل
زمیں تا آسماں کتنے مسائل ہو گئے ہیں!
نبیلؔ آواز بھی اپنی کہاں تھی مدتوں سے
جو تم آئے تو ہم یک لخت محفل ہو گئے ہیں