Aziz Nabeel

عزیز نبیل

قطر میں مقیم معروف شاعر

Popular poet based in Qatar

عزیز نبیل کی غزل

    پرندے جھیل پر اک ربط روحانی میں آئے ہیں

    پرندے جھیل پر اک ربط روحانی میں آئے ہیں کسی بچھڑے ہوئے موسم کی حیرانی میں آئے ہیں مسلسل دھند ہلکی روشنی بھیگے ہوئے منظر یہ کن برسی ہوئی آنکھوں کی نگرانی میں آئے ہیں کئی ساحل یہاں ڈوبے ہیں اور گرداب ٹوٹے ہیں کئی طوفان اس ٹھہرے ہوئے پانی میں آئے ہیں میں جن لمحوں کے سائے میں ...

    مزید پڑھیے

    گزرنے والی ہوا کو بتا دیا گیا ہے

    گزرنے والی ہوا کو بتا دیا گیا ہے کہ خوشبوؤں کا جزیرہ جلا دیا گیا ہے زمیں کی آنکھ کا نقشہ بنا دیا گیا ہے اور ایک تیر فضا میں چلا دیا گیا ہے اسی کے دم سے تھا روشن سپاہ شب کا علم وہ چاند جس کو زمیں میں دبا دیا گیا ہے وہ ایک راز! جو مدت سے راز تھا ہی نہیں اس ایک راز سے پردہ اٹھا دیا گیا ...

    مزید پڑھیے

    نہ جانے کیسی محرومی پس رفتار چلتی ہے

    نہ جانے کیسی محرومی پس رفتار چلتی ہے ہمیشہ میرے آگے آگے اک دیوار چلتی ہے وہ اک حیرت کہ میں جس کا تعاقب روز کرتا ہوں وہ اک وحشت مرے ہم راہ جو ہر بار چلتی ہے نکل کر مجھ سے باہر لوٹ آتی ہے مری جانب مری دیوانگی اب صورت پرکار چلتی ہے عجب انداز ہم سفری ہے یہ بھی قافلے والو ہمارے ...

    مزید پڑھیے

    سنو مسافر! سرائے جاں کو تمہاری یادیں جلا چکی ہیں

    سنو مسافر! سرائے جاں کو تمہاری یادیں جلا چکی ہیں محبتوں کی حکایتیں اب یہاں سے ڈیرا اٹھا چکی ہیں وہ شہر حیرت کا شاہزادہ گرفت ادراک میں نہیں ہے اس ایک چہرے کی حیرتوں میں ہزار آنکھیں سما چکی ہیں ہم اپنے سر پر گزشتہ دن کی تھکن اٹھائے بھٹک رہے ہیں دیار شب تیری خواب گاہیں تمام پردے ...

    مزید پڑھیے

    آئیں گے نظر صبح کے آثار میں ہم لوگ

    آئیں گے نظر صبح کے آثار میں ہم لوگ بیٹھے ہیں ابھی پردۂ اسرار میں ہم لوگ لائے گئے پہلے تو سر دشت اجازت مارے گئے پھر وادئ انکار میں ہم لوگ اک منظر حیرت میں فنا ہو گئیں آنکھیں آئے تھے کسی موسم دیدار میں ہم لوگ ہر رنگ ہمارا ہے، ہر اک رنگ میں ہم ہیں تصویر ہوئے وقت کی رفتار میں ہم ...

    مزید پڑھیے

    حیات و کائنات پر کتاب لکھ رہے تھے ہم

    حیات و کائنات پر کتاب لکھ رہے تھے ہم جہاں جہاں ثواب تھا عذاب لکھ رہے تھے ہم ہماری تشنگی کا غم رقم تھا موج موج پر سمندروں کے جسم پر سراب لکھ رہے تھے ہم سوال تھا کہ جستجو عظیم ہے کہ آرزو سو یوں ہوا کہ عمر بھر جواب لکھ رہے تھے ہم سلگتے دشت، ریت اور ببول تھے ہر ایک سو نگر نگر، گلی ...

    مزید پڑھیے

    میں اپنے گرد لکیریں بچھائے بیٹھا ہوں

    میں اپنے گرد لکیریں بچھائے بیٹھا ہوں سرائے درد میں ڈیرا جمائے بیٹھا ہوں نبیلؔ ریت میں سکے تلاش کرتے ہوئے میں اپنی پوری جوانی گنوائے بیٹھا ہوں یہ شہر کیا ہے نکلتا نہیں کوئی گھر سے کئی دنوں سے تماشہ لگائے بیٹھا ہوں جو لوگ درد کے گاہک ہیں سامنے آئیں ہر ایک گھاؤ سے پردہ اٹھائے ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں کے غم کدوں میں اجالے ہوئے تو ہیں

    آنکھوں کے غم کدوں میں اجالے ہوئے تو ہیں بنیاد ایک خواب کی ڈالے ہوئے تو ہیں تلوار گر گئی ہے زمیں پر تو کیا ہوا دستار اپنے سر پہ سنبھالے ہوئے تو ہیں اب دیکھنا ہے آتے ہیں کس سمت سے جواب ہم نے کئی سوال اچھالے ہوئے تو ہیں زخمی ہوئی ہے روح تو کچھ غم نہیں ہمیں ہم اپنے دوستوں کے حوالے ...

    مزید پڑھیے

    اس کی سوچیں اور اس کی گفتگو میری طرح

    اس کی سوچیں اور اس کی گفتگو میری طرح وہ سنہرا آدمی تھا ہو بہ ہو میری طرح ایک برگ بے شجر اور اک صدائے بازگشت دونوں آوارہ پھرے ہیں کو بہ کو میری طرح چاند تارے اک دیا اور رات کا کومل بدن صبح دم بکھرے پڑے تھے چار سو میری طرح لطف آوے گا بہت اے ساکنان قصر ناز بے در و دیوار بھی رہیو ...

    مزید پڑھیے

    میں دسترس سے تمہاری نکل بھی سکتا ہوں

    میں دسترس سے تمہاری نکل بھی سکتا ہوں یہ سوچ لو کہ میں رستہ بدل بھی سکتا ہوں تمہارے بعد یہ جانا کہ میں جو پتھر تھا تمہارے بعد کسی دم پگھل بھی سکتا ہوں قلم ہے ہاتھ میں کردار بھی مرے بس میں اگر میں چاہوں کہانی بدل بھی سکتا ہوں مری سرشت میں ویسے تو خشک دریا ہے اگر پکار لے صحرا ابل ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4