پرندے جھیل پر اک ربط روحانی میں آئے ہیں

پرندے جھیل پر اک ربط روحانی میں آئے ہیں
کسی بچھڑے ہوئے موسم کی حیرانی میں آئے ہیں


مسلسل دھند ہلکی روشنی بھیگے ہوئے منظر
یہ کن برسی ہوئی آنکھوں کی نگرانی میں آئے ہیں


کئی ساحل یہاں ڈوبے ہیں اور گرداب ٹوٹے ہیں
کئی طوفان اس ٹھہرے ہوئے پانی میں آئے ہیں


میں جن لمحوں کے سائے میں تمہارے پاس پہنچا ہوں
وہ لمحے سجدہ بن کر میری پیشانی میں آئے ہیں


نظر بھر کر اسے دیکھو تو یوں محسوس ہوتا ہے
ہزاروں رنگ اک چہرے کی تابانی میں آئے ہیں