Azhar Inayati

اظہر عنایتی

رام پور دبستان کے اہم شاعر/ محشر عنایتی کے شاگرد

Prominent poet of Rampur School/ Disciple of Mahshar Inayati

اظہر عنایتی کی غزل

    وہ مجھ سے میرا تعارف کرانے آیا تھا

    وہ مجھ سے میرا تعارف کرانے آیا تھا ابھی گزر جو گیا اک عظیم لمحہ تھا سنا ہے میں نے یہاں سرخ گھاس آ گئی تھی وہ بادشاہ یہیں اپنی جنگ ہارا تھا ہماری رات سے بہتر تھی اگلے وقت کی رات ہر ایک گھر میں دیا صبح تک تو جلتا تھا عزیز مجھ کو بھی تھے نقش اپنے ماضی کے اسے بھی شوق پرانی عمارتوں کا ...

    مزید پڑھیے

    یہ کیا کہ رنگ ہاتھوں سے اپنے چھڑائیں ہم

    یہ کیا کہ رنگ ہاتھوں سے اپنے چھڑائیں ہم الزام تتلیوں کے پروں پر لگائیں ہم ہوتی ہیں روز روز کہاں ایسی بارشیں آؤ کہ سر سے پاؤں تلک بھیگ جائیں ہم اکتا گیا ہے ساتھ کے ان قہقہوں سے دل کچھ روز کو بچھڑ کے اب آنسو بہائیں ہم کب تک فضول لوگوں پر ہم تجربے کریں کاغذ کے یہ جہاز کہاں تک ...

    مزید پڑھیے

    ترے تقاضوں پہ چہرہ بدل رہا ہوں میں

    ترے تقاضوں پہ چہرہ بدل رہا ہوں میں نئے زمانے ترے ساتھ چل رہا ہوں میں چراغ آخر شب ہوں مگر ابھی سورج سکون سے تو نکلنا کہ جل رہا ہوں میں یہ چاہتا ہوں کی ہر رخ سے دیکھ لوں دنیا یہ زاویے جو نظر کے بدل رہا ہوں میں نئی ہوائیں ابھی سب گھروں تک آئی نہیں ابھی تو ہاتھ کا پنکھا ہی جھل رہا ...

    مزید پڑھیے

    وہ تازہ دم ہیں نئے شعبدے دکھاتے ہوئے

    وہ تازہ دم ہیں نئے شعبدے دکھاتے ہوئے عوام تھکنے لگے تالیاں بجاتے ہوئے سنبھل کے چلنے کا سارا غرور ٹوٹ گیا اک ایسی بات کہی اس نے لڑکھڑاتے ہوئے ابھارتی ہوئی جذبات کو یہ تصویریں یہ انقلاب ہمارے گھروں میں آتے ہوئے اسی لیے کہ کہیں ان کا قد نہ گھٹ جائے سلام کو بھی وہ ڈرتے ہیں ہاتھ ...

    مزید پڑھیے

    اس بلندی پہ کہاں تھے پہلے

    اس بلندی پہ کہاں تھے پہلے اب جو بادل ہیں دھواں تھے پہلے نقش مٹتے ہیں تو آتا ہے خیال ریت پر ہم بھی کہاں تھے پہلے اب ہر اک شخص ہے اعزاز طلب شہر میں چند مکاں تھے پہلے آج شہروں میں ہیں جتنے خطرے جنگلوں میں بھی کہاں تھے پہلے لوگ یوں کہتے ہیں اپنے قصے جیسے وہ شاہ جہاں تھے پہلے ٹوٹ ...

    مزید پڑھیے

    اس راستے میں جب کوئی سایہ نہ پائے گا

    اس راستے میں جب کوئی سایہ نہ پائے گا یہ آخری درخت بہت یاد آئے گا بچھڑے ہوؤں کی یاد تو آئے گی جیتے جی موسم رفاقتوں کا پلٹ کر نہ آئے گا تخلیق اور شکست کا دیکھیں گے لوگ فن دریا حباب سطح پہ جب تک بنائے گا ہر ہر قدم پہ آئنہ بردار ہے نظر بے چہرگی کو کوئی کہاں تک چھپائے گا میری صدا کا ...

    مزید پڑھیے

    میسر ہو جو لمحہ دیکھنے کو

    میسر ہو جو لمحہ دیکھنے کو کتابوں میں ہے کیا کیا دیکھنے کو ہزاروں قد آدم آئنے ہیں مگر ترسوگے چہرہ دیکھنے کو ابھی ہیں کچھ پرانی یادگاریں تم آنا شہر میرا دیکھنے کو پھر اس کے بعد تھا خاموش پانی کہ لوگ آئے تھے دریا دیکھنے کو ہوا سے ہی کھلتا تھا اکثر مجھے بھی اک دریچہ دیکھنے ...

    مزید پڑھیے

    کبھی قریب کبھی دور ہو کے روتے ہیں

    کبھی قریب کبھی دور ہو کے روتے ہیں محبتوں کے بھی موسم عجیب ہوتے ہیں ذہانتوں کو کہاں وقت خوں بہانے کا ہمارے شہر میں کردار قتل ہوتے ہیں فضا میں ہم ہی بناتے ہیں آگ کے منظر سمندروں میں ہمیں کشتیاں ڈبوتے ہیں پلٹ چلیں کہ غلط آ گئے ہمیں شاید رئیس لوگوں سے ملنے کے وقت ہوتے ہیں میں اس ...

    مزید پڑھیے

    گھر تو ہمارا شعلوں کے نرغے میں آ گیا

    گھر تو ہمارا شعلوں کے نرغے میں آ گیا لیکن تمام شہر اجالے میں آ گیا یہ بھی رہا ہے کوچۂ جاناں میں اپنا رنگ آہٹ ہوئی تو چاند دریچے میں آ گیا ہونٹوں پہ غیبتوں کی خراشیں لیے ہوئے یہ کون آئنوں کے قبیلے میں آ گیا آندھی بھی بچپنے کی حدوں سے گزر گئی مجھ کو بھی لطف شمع جلانے میں آ ...

    مزید پڑھیے

    اپنے آنچل میں چھپا کر مرے آنسو لے جا

    اپنے آنچل میں چھپا کر مرے آنسو لے جا یاد رکھنے کو ملاقات کے جگنو لے جا میں جسے ڈھونڈنے نکلا تھا اسے پا نہ سکا اب جدھر جی ترا چاہے مجھے خوشبو لے جا آ ذرا دیر کو اور مجھ سے ملاقات کے بعد سوچنے کے لیے روشن کوئی پہلو لے جا حادثے اونچی اڑانوں میں بہت ہوتے ہیں تجربہ تجھ کو نہیں ہے مرے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 5