Azhar Bakhsh Azhar

اظہر بخش اظہر

اظہر بخش اظہر کی غزل

    شکاری ہیں بڑے شاطر بہانہ لے کے چلتے ہیں

    شکاری ہیں بڑے شاطر بہانہ لے کے چلتے ہیں وہ ترچھی نظروں میں سیدھا نشانہ لے کے چلتے ہیں ہماری میزبانی سے نہ گھبرایا کرو لوگو ہم اپنے ساتھ اپنا آب و دانہ لے کے چلتے ہیں ذرا پہچان کر بتلاؤ تو یہ کون ہیں کیا ہیں کہ بادل جن کے سر پر شامیانہ لے کے چلتے ہیں کہ ہم اہل ادب ہم کیا کریں گے ...

    مزید پڑھیے

    اک غزل تو مرے ہاتھوں سے مثالی ہو جائے

    اک غزل تو مرے ہاتھوں سے مثالی ہو جائے کاش کے تو مرا محبوب خیالی ہو جائے دیکھ لے تو مری جانب جو اٹھا کر نظریں چشم پر نم جو تری ہے وہ غزالی ہو جائے چاند سے رخ پہ جو پھرتے ہو لگا کر گاگل عید کر لے نہ کوئی کچھ کی دیوالی ہو جائے سامنے اس کو میں رکھتا ہوں غزل کہتا ہوں جب اس غزل گوئی کی ...

    مزید پڑھیے

    ذرا سی ان بن میں روٹھ کر وہ جو دشمنوں میں ٹہل رہے ہیں

    ذرا سی ان بن میں روٹھ کر وہ جو دشمنوں میں ٹہل رہے ہیں ابھی جو نوحہ بنے ہوئے ہیں کبھی ہماری غزل رہے ہیں بنا بتائے چلا گیا تھا بتا کے ملنے جو آ گیا ہوں تو روٹھ کر وہ گئے ہیں گھر میں خوشی سے چھپ کر اچھل رہے ہیں مرض ہوا ہے محبتوں کا یہ رات کیسے کٹے گی جانے ہماری نیندیں بھی اڑ چکی ہیں ...

    مزید پڑھیے

    عجیب تشنگی ہر سو مرے بدن میں ہے

    عجیب تشنگی ہر سو مرے بدن میں ہے کسی سراب کا آہو مرے بدن میں ہے کسی سے عشق سا ہونے کو ہے یہ تم ہو کیا نئے گلاب کی خوشبو مرے بدن میں ہے کبھی کسی سے بھی کھل کر میں مل نہیں سکتا مجھے خبر ہے کہ بس تو مرے بدن میں ہے محل کو چھوڑ کے آ جاتی ہیں زلیخائیں نہ جانے کون سا جادو مرے بدن میں ...

    مزید پڑھیے

    شکر ہے اب کے بیکلی کم ہے

    شکر ہے اب کے بیکلی کم ہے آج کل ان سے دوستی کم ہے سانس لینے میں دم نکلتا ہے ان ہواؤں میں کچھ نمی کم ہے تم اسے زخم دل دکھاتے ہو وہ جو قاتل ہے آدمی کم ہے تاب بھر اس میں ہے جلانے کی اپنے سورج میں روشنی کم ہے ہم تو دنیا کو کیا سے کیا کر دیں کیا کریں اپنی زندگی کم ہے لگ رہا ہے کہ وہ نہ ...

    مزید پڑھیے