سنجیو صراف کے لیے ایک نظم
عزم شاہینی لیے اک نوجواں سنجیو ہے اب مری اردو کا سچا پاسباں سنجیو ہے ریختہ کے ہو تمہیں استاد غالب آج بھی ہاں مگر اس باغ کا اب باغباں سنجیو ہے جس میں لاکھوں ہیں ستارے شاعری و نثر کے اس نئی اک کہکشاں کا آسماں سنجیو ہے خوب رو ہے خوب سیرت نرم گفتاری بھی ہے با ادب تہذیب کا سیل رواں ...