Azeemullah Khan Waqar

عظیم اللہ خاں وقار

  • 1944

عظیم اللہ خاں وقار کی غزل

    اب تحفظ نہیں ہے جانوں کا

    اب تحفظ نہیں ہے جانوں کا یہ ہے احسان حکمرانوں کا بھوک افلاس اور بیماری مسئلہ ہے کئی گھرانوں کا ساری بستی نگل گیا طوفاں کیا چلے گا پتا مکانوں کا ہو گیا کتنا لالچی انساں بن گیا سانپ وہ خزانوں کا تولتے ہیں پروں کو وہ اپنے علم جن کو نہیں اڑانوں کا صرف باقی رہا کتابوں میں ذکر اب ...

    مزید پڑھیے

    جو گھر کی بات باہر بولتا ہے

    جو گھر کی بات باہر بولتا ہے وہ میرا ہی برادر بولتا ہے اجالے اب ہمیں ڈسنے لگے ہیں سکوت شب کا منظر بولتا ہے جلیں گے ان غریبوں کے مکاں پھر یہاں کا ہر ستم گر بولتا ہے موثر ہو جو انداز تخاطب پڑا راہوں میں پتھر بولتا ہے کسی کا قتل ہوگا پھر یقیناً چھپا ہاتھوں میں خنجر بولتا ہے رویہ ...

    مزید پڑھیے

    کیوں یہ حسن نظر دیا تو نے

    کیوں یہ حسن نظر دیا تو نے وقف آلام کر دیا تو نے مندمل جو کبھی نہ ہو پائے ایسا زخم جگر دیا تو نے کون منصور جو چڑھے سولی یوں تو سب کو جگر دیا تو نے ڈوبتی نبض کرب سناٹے اور حکم سفر دیا تو نے زندگی چھاؤں کو ترستی ہے کیسا جلتا سفر دیا تو نے تاج بنتے ہی ہاتھ کٹتے ہیں کیسا دست ہنر دیا ...

    مزید پڑھیے

    سختیوں سے گزر رہا ہوں میں

    سختیوں سے گزر رہا ہوں میں گویا قسطوں میں مر رہا ہوں میں دوستوں کی نوازشیں توبہ اپنے سایہ سے ڈر رہا ہوں میں ظلمتوں کا غرور ٹوٹے گا نور بن کر ابھر رہا ہوں میں ایک عالم تو یوں بھی گزرا ہے آپ سے بے خبر رہا ہوں میں کوئی آ کر سمیٹ لے مجھ کو ریزہ ریزہ بکھر رہا ہوں میں چن کے کانٹے ...

    مزید پڑھیے