جو گھر کی بات باہر بولتا ہے

جو گھر کی بات باہر بولتا ہے
وہ میرا ہی برادر بولتا ہے


اجالے اب ہمیں ڈسنے لگے ہیں
سکوت شب کا منظر بولتا ہے


جلیں گے ان غریبوں کے مکاں پھر
یہاں کا ہر ستم گر بولتا ہے


موثر ہو جو انداز تخاطب
پڑا راہوں میں پتھر بولتا ہے


کسی کا قتل ہوگا پھر یقیناً
چھپا ہاتھوں میں خنجر بولتا ہے


رویہ ہو تمہارا مخلصانہ
مری ملت کا رہبر بولتا ہے


وقارؔ حق نوا کی بات سن لو
ہزاروں میں وہ کھل کر بولتا ہے