اب تحفظ نہیں ہے جانوں کا

اب تحفظ نہیں ہے جانوں کا
یہ ہے احسان حکمرانوں کا


بھوک افلاس اور بیماری
مسئلہ ہے کئی گھرانوں کا


ساری بستی نگل گیا طوفاں
کیا چلے گا پتا مکانوں کا


ہو گیا کتنا لالچی انساں
بن گیا سانپ وہ خزانوں کا


تولتے ہیں پروں کو وہ اپنے
علم جن کو نہیں اڑانوں کا


صرف باقی رہا کتابوں میں
ذکر اب شاہی خاندانوں کا


چاہتے ہو وقارؔ آزادی
فدیہ دینا پڑے گا جانوں کا