ہم وہ آوارہ کہ جو دشت نہ گھر کے لئے ہیں
ہم وہ آوارہ کہ جو دشت نہ گھر کے لئے ہیں
جانے پھر کون سی دنیائے دگر کے لئے ہیں
جبر موسم کے ہیں جتنے بھی شجر کے لئے ہیں
ان کو کیا اس سے جو بیتاب ثمر کے لئے ہیں
رونقیں بھی تو بجھا دیتی ہیں آنکھیں اکثر
کچھ نظارے ہیں کہ قاتل جو نظر کے لئے ہیں
راس آتی ہے بھلا ان کو کہاں نان جویں
لوگ زندہ یہ فقط لقمۂ تر کے لئے ہیں
تم تو افلاک سے تاروں کی خبر لے آئے
ہم پریشان ابھی سمت سفر کے لئے ہیں