لرز لرز کے دل ناتواں ٹھہر ہی نہ جائے
لرز لرز کے دل ناتواں ٹھہر ہی نہ جائے
فراق ساز کہیں روح نغمہ مر ہی نہ جائے
اتار لے کسی شیشے میں ساعت نغمہ
صدائے قافلۂ گل کہیں بکھر ہی نہ جائے
سنا بھی دے کسی گل کو فسون تنہائی
رہ خیال سے یہ کارواں گزر ہی نہ جائے
ہے ایک قلزم خوں قریۂ جنوں سے ادھر
یہاں جو آئے کوئی اس کی پھر خبر ہی نہ جائے
کسی کو مہلت ہستی بھی دے غم جاناں
یہ کیا کہ آئے کوئی تو پلٹ کے گھر ہی نہ جائے
وہ خوش مزاج ہے اس کو الم سے کیا نسبت
سنا نہ عشق کا غم، عشق سے وہ ڈر ہی نہ جائے
نگاہ یار، غم جاں گسل کا کیا ہوگا
ترے کرم سے نصیب وفا سنور ہی نہ جائے
بہا دے آج کچھ آنسو کہ پھر غنیمت ہیں
چڑھا ہے آج جو دریا وہ کل اتر ہی نہ جائے
بجا کہ جاں سے گزرنا بہت کٹھن ہے مگر
ترے نثار کوئی ایسا کام کر ہی نہ جائے