Asif Shafi

آصف شفیع

آصف شفیع کی غزل

    کار دنیا سے گئے دیدۂ بے دار کے ساتھ

    کار دنیا سے گئے دیدۂ بے دار کے ساتھ ربط لازم تھا مگر نرگس بیمار کے ساتھ قیمت شوق بڑھی ایک ہی انکار کے ساتھ واقعہ کچھ تو ہوا چشم خریدار کے ساتھ ہر کوئی جان بچانے کے لئے دوڑ پڑا کون تھا آخر دم قافلہ سالار کے ساتھ میں ترے خواب سے آگے بھی نکل سکتا ہوں دیکھ مجھ کو نہ پرکھ وقت کی ...

    مزید پڑھیے

    یہ معجزہ بھی کسی روز کر ہی جانا ہے

    یہ معجزہ بھی کسی روز کر ہی جانا ہے ترے خیال سے اک دن گزر ہی جانا ہے نہ جانے کس لیے لمحوں کا بوجھ ڈھوتے ہیں یہ جانتے ہیں کہ اک دن تو مر ہی جانا ہے وہ کہہ رہا تھا نبھائے گا پیار کی رسمیں میں جانتا تھا کہ اس نے مکر ہی جانا ہے ہوائے شام کہاں لے چلی زمانے کو ذرا ٹھہر کہ ہمیں بھی ادھر ہی ...

    مزید پڑھیے

    جہان حسن و نظر سے کنارہ کرنا ہے

    جہان حسن و نظر سے کنارہ کرنا ہے وجود شب کو مجھے استعارہ کرنا ہے مرے دریچۂ دل میں ٹھہر نہ جائے کہیں وہ ایک خواب کہ جس کو ستارہ کرنا ہے تمام شہر اندھیروں میں ڈوب جائے گا ہوا کو ایک ہی اس نے اشارہ کرنا ہے یہ قربتوں کے ہیں لمحے انہیں غنیمت جان انہی دنوں کو تو ہم نے پکارا کرنا ہے وہ ...

    مزید پڑھیے

    یہ بھی کرنا پڑا محبت میں

    یہ بھی کرنا پڑا محبت میں خود سے ڈرنا پڑا محبت میں دشت جاں کے مہیب رستوں سے پھر گزرنا پڑا محبت میں کتنے ملبوس زخم نے بدلے جب سنورنا پڑا محبت میں پار اترے تو پھر سمجھ آئی کیوں اترنا پڑا محبت میں خود بخود ہم سمٹ گئے دل میں جب بکھرنا پڑا محبت میں

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2