Asif Shafi

آصف شفیع

آصف شفیع کی غزل

    جمال یار کو تصویر کرنے والے تھے

    جمال یار کو تصویر کرنے والے تھے ہم ایک خواب کی تعبیر کرنے والے تھے شب وصال وہ لمحے گنوا دیئے ہم نے جو درد ہجر کو اکسیر کرنے والے تھے کہیں سے ٹوٹ گیا سلسلہ خیالوں کا کئی محل ابھی تعمیر کرنے والے تھے اور ایک دن مجھے اس شہر سے نکلنا پڑا جہاں سبھی مری توقیر کرنے والے تھے ہماری در ...

    مزید پڑھیے

    عمر ساری تری چاہت میں بتانی پڑ جائے

    عمر ساری تری چاہت میں بتانی پڑ جائے یہ بھی ممکن ہے کہ یہ آگ بجھانی پڑ جائے میری اس خانہ بدوشی کا سبب پوچھتے ہو اپنی دیوار اگر تم کو گرانی پڑ جائے میرے اعدا سے کہو حد سے تجاوز نہ کریں یہ نہ ہو مجھ کو بھی شمشیر اٹھانی پڑ جائے کیا تماشا ہو اگر وقت کے سلطان کو بھی در انصاف کی زنجیر ...

    مزید پڑھیے

    اور اب یہ دل بھی میرا مانتا ہے

    اور اب یہ دل بھی میرا مانتا ہے وہ میری دسترس سے ماورا ہے چلو کوئی ٹھکانہ ڈھونڈتے ہیں ہوا کا زور بڑھتا جا رہا ہے مرے دل میں ہے صحراؤں کا منظر مگر آنکھوں سے چشمہ پھوٹتا ہے صدا کوئی سنائی دے تو کیسے مرے گھر میں خلا اندر خلا ہے زمانہ ہٹ چکا پیچھے کبھی کا اور اب تو صرف اپنا سامنا ...

    مزید پڑھیے

    راہ جنوں پہ چل پرے جینا محال کر لیا

    راہ جنوں پہ چل پرے جینا محال کر لیا ہم نے تلاش حسن میں خود کو نڈھال کر لیا مجھ کو تو خیر چھوڑیئے میری تو بات اور تھی یہ بھی بہت ہے اس نے کچھ اپنا خیال کر لیا کیسے وہ دن تھے پیار کے خود پہ بھی جب یقین تھا پل میں جدائی ڈال لی پل میں وصال کر لیا جیسے رہے ہیں وصل میں مرتے رہے ہیں ہجر ...

    مزید پڑھیے

    زمیں کہیں ہے مری اور آسمان کہیں

    زمیں کہیں ہے مری اور آسمان کہیں بھٹک رہا ہوں خلاؤں کے درمیان کہیں مرا جنوں ہی مرا آخری تعارف ہے میں چھوڑ آیا ہوں اپنا ہر اک نشان کہیں اسی لیے میں روایت سے منحرف نہ ہوا کہ چھوڑ دے نہ مجھے میرا خاندان کہیں لکھی گئی ہے مری فرد جرم اور جگہ لیے گئے ہیں گواہان کے بیان کہیں ہوائے تند ...

    مزید پڑھیے

    ایک یوسف کے خریدار ہوئے ہیں ہم لوگ

    ایک یوسف کے خریدار ہوئے ہیں ہم لوگ پھر محبت میں گرفتار ہوئے ہیں ہم لوگ چشم رنگیں کی کرامات سے گھائل ہو کر تیری الفت کے طلب گار ہوئے ہیں ہم لوگ شہر خوباں کی روایات سے شورش کر کے غم ہجراں کے سزا وار ہوئے ہیں ہم لوگ زندگی تو نے ہمیں درد کے آنسو بخشے پھر بھی تیرے ہی طرفدار ہوئے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    اے مجھے میرؔ کے اشعار سنانے والے

    اے مجھے میرؔ کے اشعار سنانے والے جاگ اٹھے ہیں کئی درد پرانے والے مجھ کو تنہائی میں یوں چھوڑ کے جاتا کیوں ہے تیری جانب ہیں کئی قرض چکانے والے یہ بتا ہجر کے موسم کا مداوا کیا ہے مجھ کو انداز محبت کے سکھانے والے عشق والوں سے حسب اور نسب پوچھتے ہو لوگ ہیں یہ تو میاں اونچے گھرانے ...

    مزید پڑھیے

    فلک کو کس نے اک پرکار پر رکھا ہوا ہے

    فلک کو کس نے اک پرکار پر رکھا ہوا ہے زمیں کو بھی اسی رفتار پر رکھا ہوا ہے ابھی اک خواب میں نے جاگتے میں ایسے ہے دیکھا مرا آنسو ترے رخسار پر رکھا ہوا ہے شکست و فتح کی خاطر ہمیں لڑنا نہیں ہے ہمارا فیصلہ سالار پر رکھا ہوا ہے پلٹ کر آ ہی جائے گا کبھی بھولے سے شاید سو میں نے اک دیا ...

    مزید پڑھیے

    دل میں وفا کی ہے طلب لب پہ سوال بھی نہیں

    دل میں وفا کی ہے طلب لب پہ سوال بھی نہیں ہم ہیں حصار درد میں اس کو خیال بھی نہیں وہ جو انا پرست ہے میں بھی وفا پرست ہوں اس کی مثال بھی نہیں میری مثال بھی نہیں عہد وصال یار کی تجھ میں نہاں ہیں دھڑکنیں موجۂ خون احتیاط خود کو اچھال بھی نہیں تم کو زبان دے چکے دل کا جہان دے چکے عہد ...

    مزید پڑھیے

    ہر طرف ہے فسوں محبت کا

    ہر طرف ہے فسوں محبت کا گیت میں بھی سنوں محبت کا یہ جو شعلے ہیں میری آنکھوں میں ہے یہ سوز دروں محبت کا تم یہ کہتے ہو میں رہوں زندہ اور دکھ بھی سہوں محبت کا سوچتا ہوں کہ اب تمہارے بغیر لفظ کیسے لکھوں محبت کا آج دنیا نے جیت لی بازی آج سر ہے نگوں محبت کا

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2