Asif Shafi

آصف شفیع

آصف شفیع کے تمام مواد

14 غزل (Ghazal)

    جمال یار کو تصویر کرنے والے تھے

    جمال یار کو تصویر کرنے والے تھے ہم ایک خواب کی تعبیر کرنے والے تھے شب وصال وہ لمحے گنوا دیئے ہم نے جو درد ہجر کو اکسیر کرنے والے تھے کہیں سے ٹوٹ گیا سلسلہ خیالوں کا کئی محل ابھی تعمیر کرنے والے تھے اور ایک دن مجھے اس شہر سے نکلنا پڑا جہاں سبھی مری توقیر کرنے والے تھے ہماری در ...

    مزید پڑھیے

    عمر ساری تری چاہت میں بتانی پڑ جائے

    عمر ساری تری چاہت میں بتانی پڑ جائے یہ بھی ممکن ہے کہ یہ آگ بجھانی پڑ جائے میری اس خانہ بدوشی کا سبب پوچھتے ہو اپنی دیوار اگر تم کو گرانی پڑ جائے میرے اعدا سے کہو حد سے تجاوز نہ کریں یہ نہ ہو مجھ کو بھی شمشیر اٹھانی پڑ جائے کیا تماشا ہو اگر وقت کے سلطان کو بھی در انصاف کی زنجیر ...

    مزید پڑھیے

    اور اب یہ دل بھی میرا مانتا ہے

    اور اب یہ دل بھی میرا مانتا ہے وہ میری دسترس سے ماورا ہے چلو کوئی ٹھکانہ ڈھونڈتے ہیں ہوا کا زور بڑھتا جا رہا ہے مرے دل میں ہے صحراؤں کا منظر مگر آنکھوں سے چشمہ پھوٹتا ہے صدا کوئی سنائی دے تو کیسے مرے گھر میں خلا اندر خلا ہے زمانہ ہٹ چکا پیچھے کبھی کا اور اب تو صرف اپنا سامنا ...

    مزید پڑھیے

    راہ جنوں پہ چل پرے جینا محال کر لیا

    راہ جنوں پہ چل پرے جینا محال کر لیا ہم نے تلاش حسن میں خود کو نڈھال کر لیا مجھ کو تو خیر چھوڑیئے میری تو بات اور تھی یہ بھی بہت ہے اس نے کچھ اپنا خیال کر لیا کیسے وہ دن تھے پیار کے خود پہ بھی جب یقین تھا پل میں جدائی ڈال لی پل میں وصال کر لیا جیسے رہے ہیں وصل میں مرتے رہے ہیں ہجر ...

    مزید پڑھیے

    زمیں کہیں ہے مری اور آسمان کہیں

    زمیں کہیں ہے مری اور آسمان کہیں بھٹک رہا ہوں خلاؤں کے درمیان کہیں مرا جنوں ہی مرا آخری تعارف ہے میں چھوڑ آیا ہوں اپنا ہر اک نشان کہیں اسی لیے میں روایت سے منحرف نہ ہوا کہ چھوڑ دے نہ مجھے میرا خاندان کہیں لکھی گئی ہے مری فرد جرم اور جگہ لیے گئے ہیں گواہان کے بیان کہیں ہوائے تند ...

    مزید پڑھیے

تمام

2 نظم (Nazm)

    چند لمحے وصال موسم کے

    درد کی ایک بے کراں رت ہے حبس موسم کا راج ہر جانب چند لمحے وصال موسم کے وہ نشیلی غزال سی آنکھیں کوئی خوشبو سیاہ زلفوں کی لمس پھر وہ حنائی ہاتھوں کا کوئی سرخی وفا کے پیکر کی پھر سے شیریں دہن سے باتیں ہوں دل کی دنیا اداس ہے کتنی کوئی منظر بھی اب نہیں بھاتا چند لمحے وصال موسم کے

    مزید پڑھیے

    صدیوں سے اجنبی

    اس کی قربت میں بیتے سب لمحے میری یادوں کا ایک سرمایہ خوشبوؤں سے بھرا بدن اس کا قابل دید بانکپن اس کا شعلہ افروز حسن تھا اس کا دل کشی کا وہ اک نمونہ تھی مجھ سے جب ہم کلام ہوتی تھی خواہشوں کے چمن میں ہر جانب چاہتوں کے گلاب کھلتے تھے اس کی قربت میں ایسے لگتا تھا اک پری آسماں سے اتری ...

    مزید پڑھیے