میں چپ ہوں اور دنیا سن رہی ہے

میں چپ ہوں اور دنیا سن رہی ہے
خموشی داستانیں بن رہی ہے


تعجب ہے کہ اک سونے کی چڑیا
بیابانوں میں تنکے چن رہی ہے


کہاں نیکی گناہوں سے ہی بچ لیں
ہمیں تو بس یہی اک دھن رہی ہے


تجھے محسوس کرتے بھی تو کیسے
چھٹی حس بھی ہماری سن رہی ہے


میں اس بستی کا باشندہ تھا یا رب
جہاں سچائی بھی اوگن رہی ہے


یہاں گردش میں ہیں دن رات انجمؔ
وہاں بس اک صدائے کن رہی ہے