نہ ہوتا دہر سے جو بے نیاز کیا کرتا

نہ ہوتا دہر سے جو بے نیاز کیا کرتا
کھلا تھا مجھ پہ کچھ ایسا ہی راز کیا کرتا


مریض کشمکش جبر و اختیار میں تھا
علاج جذب و کشش چارہ ساز کیا کرتا


ترے کرم نے تو دنیا ہی سونپ دی تھی مجھے
بچا کے کچھ نہ رکھا حرص و آز کیا کرتا


بگڑ گیا مرا حلیہ تو برہمی کیسی
تھے رہ گزر میں نشیب و فراز کیا کرتا


مجھے خبر تھی کہ میں بھی ترے سبب سے ہوں
پھر اپنی ذات پہ میں فخر و ناز کیا کرتا


تمام عمر رہے پہرے دار کاندھوں پر
ترے خلاف اے انجمؔ نواز کیا کرتا