جینے کا نہ کچھ ہوش نہ مرنے کی خبر ہے
جینے کا نہ کچھ ہوش نہ مرنے کی خبر ہے اے شعبدہ پرداز یہ کیا طرز نظر ہے سینے میں یہاں دل ہے نہ پہلو میں جگر ہے اب کون ہے جو تشنۂ پیکان نظر ہے ہے تابش انوار سے عالم تہہ و بالا جلوہ وہ ابھی تک تہہ دامان نظر ہے کچھ ملتے ہیں اب پختگی عشق کے آثار نالوں میں رسائی ہے نہ آہوں میں اثر ...