صرف اک سوز تو مجھ میں ہے مگر ساز نہیں
صرف اک سوز تو مجھ میں ہے مگر ساز نہیں
میں فقط درد ہوں جس میں کوئی آواز نہیں
مجھ سے جو چاہئے وہ درس بصیرت لیجے
میں خود آواز ہوں میری کوئی آواز نہیں
وہ مزے ربط نہانی کے کہاں سے لاؤں
ہے نظر مجھ پہ مگر اب غلط انداز نہیں
پھر یہ سب شورش و ہنگامۂ عالم کیا ہے
اسی پردے میں اگر حسن جنوں ساز نہیں
آتش جلوۂ محبوب نے سب پھونک دیا
اب کوئی پردہ نہیں پردہ بر انداز نہیں