اثر نظامی کی غزل

    یہی مقام وفا ہے تو کوئی بات نہیں

    یہی مقام وفا ہے تو کوئی بات نہیں یہ دل یہیں پہ لٹا ہے تو کوئی بات نہیں ہمارے دور محبت کا راز سر بستہ کسی سے تم نے سنا ہے تو کوئی بات نہیں بڑے سلیقے سے مضمون بند ہے اس میں لفافہ دل کا کھلا ہے تو کوئی بات نہیں مرے خلاف فلک بوس سازشوں کا دھواں تمہارے گھر سے اٹھا ہے تو کوئی بات ...

    مزید پڑھیے

    بازار محبت میں شرمندہ شرافت ہے

    بازار محبت میں شرمندہ شرافت ہے پھولوں کی نمائش ہے خوشبو کی تجارت ہے ہنستے ہوئے گلشن کو پل بھر میں رلا ڈالے آوارہ ہواؤں میں ایسی بھی مہارت ہے تعمیر کا جذبہ بھی تخریب کا نقشہ بھی یہ شوق شہادت ہے یا ذوق بغاوت ہے بجھتے ہوئے انگارے پیغام یہ دیتے ہیں شعلوں سے الجھنے کی شبنم میں ...

    مزید پڑھیے

    اپنی نظریں در و دیوار پر اکثر رکھنا

    اپنی نظریں در و دیوار پر اکثر رکھنا اجنبی گھر میں قدم سوچ سمجھ کر رکھنا کہیں پھٹ جائے کلیجہ نہ وفور غم سے اپنی پلکوں میں چھپا کر نہ سمندر رکھنا اتنا آسان نہیں ان کو بھلانا دل سے سوچ کر اپنے کلیجے پہ یہ پتھر رکھنا یاد آتا ہے وہ منظر ترے افسانے کا اپنے محبوب کو دشمن کے برابر ...

    مزید پڑھیے

    سوجھی تدبیر نہ کچھ رنج و بلا سے پہلے

    سوجھی تدبیر نہ کچھ رنج و بلا سے پہلے زندگی چھوڑ گئی ساتھ قضا سے پہلے یہ سلگتا ہوا افلاس کا چڑھتا سورج مار ڈالے نہ کہیں گرم ہوا سے پہلے آسماں پر بھی پہنچنا کوئی دشوار نہیں چاہیے دل میں تڑپ حرف دعا سے پہلے راکھ کے ڈھیر تمہیں اس کی گواہی دیں گے مجھ کو اپنوں نے جلایا چتا سے ...

    مزید پڑھیے

    نظام جہاں بھی عجب ہے نرالا

    نظام جہاں بھی عجب ہے نرالا اندھیروں سے ڈرنے لگا ہے اجالا وہ فٹ پاتھ پر اپنا فن بیچتا تھا ستم گر جہاں نے اسے روند ڈالا انا سے کہاں کس کو مکتی ملی ہے ہے مضبوط کتنا یہ مکڑی کا جالا یہی وہ غریبی کی گلیاں ہیں یارو جہاں روز بکتا ہے عزت کا پیالہ یہ فرقہ پرستی کا منحوس بندر اثرؔ توڑ ...

    مزید پڑھیے

    لگی ہے گشت کرنے یہ خبر آہستہ آہستہ

    لگی ہے گشت کرنے یہ خبر آہستہ آہستہ کمر کسنے لگا ہے فتنہ گر آہستہ آہستہ کتر ڈالو اسے جتنا بھی تم سونے کی قینچی سے پرندے کا نکل آتا ہے پر آہستہ آہستہ ڈبو کر منچلی کشتی کو موجوں نے کہا ہنس کر کیا جاتا ہے پانی میں سفر آہستہ آہستہ طلسمی بانسری نادان بچوں کو نہ دینا تم اجڑ جائے گا ...

    مزید پڑھیے

    یہ مانا حوادث کے دھارے بہت ہیں

    یہ مانا حوادث کے دھارے بہت ہیں اگر حوصلہ ہے کنارے بہت ہیں رہ زندگی میں چلو تم سنبھل کر سمے کے طمانچے کرارے بہت ہیں تلاطم میں خود کھو گئے تم ہی ورنہ کنارے تو تم کو پکارے بہت ہیں نکل کر اندھیروں کے ملبوس سے دیکھو یہاں روشنی کے منارے بہت ہیں کہیں یہ جلا دیں نہ چلمن کو تیری مری ...

    مزید پڑھیے

    اب کوئی بات بڑھانے کی ضرورت نہ رہی

    اب کوئی بات بڑھانے کی ضرورت نہ رہی حال دل ان کو سنانے کی ضرورت نہ رہی مسئلے ہو گئے بے رخ ہی سیاست کے شکار کوئی آواز اٹھانے کی ضرورت نہ رہی قافلے درد کے خود دل سے گزر جاتے ہیں راستے ان کو دکھانے کی ضرورت نہ رہی وقت وہ ہے کہ ہوئے دونوں انا سے سرشار زندگی ساتھ نبھانے کی ضرورت نہ ...

    مزید پڑھیے

    مدعا کچھ بھی ہو لیکن مدعا رکھا کرو

    مدعا کچھ بھی ہو لیکن مدعا رکھا کرو جذبۂ تعمیر سے بھی واسطہ رکھا کرو زندگی کے راستے میں ہیں ہزاروں ٹھوکریں آبلہ پائی سلامت جو صلہ رکھا کرو مل ہی جاتے ہیں یہ اکثر زندگی کی موڑ پر اجنبی چہروں سے خود کو آشنا رکھا کرو دیکھنا شعلہ بیانی بھی ادا بن جائے گی تلخیٔ اظہار میں حسن ادا ...

    مزید پڑھیے