مدعا کچھ بھی ہو لیکن مدعا رکھا کرو
مدعا کچھ بھی ہو لیکن مدعا رکھا کرو
جذبۂ تعمیر سے بھی واسطہ رکھا کرو
زندگی کے راستے میں ہیں ہزاروں ٹھوکریں
آبلہ پائی سلامت جو صلہ رکھا کرو
مل ہی جاتے ہیں یہ اکثر زندگی کی موڑ پر
اجنبی چہروں سے خود کو آشنا رکھا کرو
دیکھنا شعلہ بیانی بھی ادا بن جائے گی
تلخیٔ اظہار میں حسن ادا رکھا کرو
موم سے بھی دوستی ہو اور شعلوں سے بھی پیار
پھر بھی ان کے درمیاں کچھ فاصلہ رکھا کرو
گھپ اندھیرا ہو تو پھر ملتی نہیں راہ نجات
ذہن و دل کا روشنی سے رابطہ رکھا کرو
تم کو جینا ہے اثرؔ اس انقلابی دور میں
اپنی فطرت میں ذرا فکر رسا رکھا کرو