اثر فریدی کی غزل

    بزرگوں نے جو تہذیبی اثاثہ گھر پہ رکھا ہے

    بزرگوں نے جو تہذیبی اثاثہ گھر پہ رکھا ہے لگایا ہے اسے آنکھوں سے میں نے سر پہ رکھا ہے یہاں کا عہدہ‌ و منصب تو مال و زر پہ رکھا ہے مگر انصاف ہم نے عرصۂ محشر پہ رکھا ہے تمہارے راستے میں تیرگی مائل نہیں ہوگی چلے آؤ دیا ہم نے جلا کے در پہ رکھا ہے مجھے احساس تنہائی نہیں مانا کہ تنہا ...

    مزید پڑھیے

    کوئی چہرہ نگاہوں میں نہیں ہے

    کوئی چہرہ نگاہوں میں نہیں ہے کہوں کیسے وہ آہوں میں نہیں ہے مری قسمت میں یہ کیسا سفر ہے کوئی سایہ بھی راہوں میں نہیں ہے اگر کردار اب تک ہے سلامت کشش کیوں خانقاہوں میں نہیں ہے غریبوں کو سر آنکھوں پہ بٹھائیں یہ جذبہ عالی جاہوں میں نہیں ہے اثرؔ تم بات جس کی کر رہے ہو تمہارے خیر ...

    مزید پڑھیے

    ہم اپنے آپ پہ قابو جو پا گئے ہوتے

    ہم اپنے آپ پہ قابو جو پا گئے ہوتے جو پل رہی ہے وہ نفرت مٹا گئے ہوتے بڑے سلیقے سے بانٹا ہے ہم فقیہوں کو ہم ایک ہوتے تو دنیا پہ چھا گئے ہوتے یہ بھوک پیاس ہمارے گھروں کی رونق تھی جو یاد رکھتے تو ہم گھر میں آ گئے ہوتے کسی کی تلخ کلامی معاف کر دیتے لگی ہے آگ جو گھر میں بجھا گئے ...

    مزید پڑھیے

    یہاں تو روز نیا اک کمال ہوتا ہے

    یہاں تو روز نیا اک کمال ہوتا ہے جواب جس کا نہیں وہ سوال ہوتا ہے کچھ اپنے آپ میں خوش ہیں کچھ اپنے آپ میں گم ملال یہ ہے کہ ہم کو ملال ہوتا ہے تمہاری بات سے سب متفق ہوں نا ممکن ہر ایک شخص کا اپنا خیال ہوتا ہے امیر شہر کو اب تک یہی ہے خوش فہمی غریب شہر کا ماضی نہ حال ہوتا ہے اثر ...

    مزید پڑھیے