کوئی چہرہ نگاہوں میں نہیں ہے

کوئی چہرہ نگاہوں میں نہیں ہے
کہوں کیسے وہ آہوں میں نہیں ہے


مری قسمت میں یہ کیسا سفر ہے
کوئی سایہ بھی راہوں میں نہیں ہے


اگر کردار اب تک ہے سلامت
کشش کیوں خانقاہوں میں نہیں ہے


غریبوں کو سر آنکھوں پہ بٹھائیں
یہ جذبہ عالی جاہوں میں نہیں ہے


اثرؔ تم بات جس کی کر رہے ہو
تمہارے خیر خواہوں میں نہیں ہے