بزرگوں نے جو تہذیبی اثاثہ گھر پہ رکھا ہے
بزرگوں نے جو تہذیبی اثاثہ گھر پہ رکھا ہے
لگایا ہے اسے آنکھوں سے میں نے سر پہ رکھا ہے
یہاں کا عہدہ و منصب تو مال و زر پہ رکھا ہے
مگر انصاف ہم نے عرصۂ محشر پہ رکھا ہے
تمہارے راستے میں تیرگی مائل نہیں ہوگی
چلے آؤ دیا ہم نے جلا کے در پہ رکھا ہے
مجھے احساس تنہائی نہیں مانا کہ تنہا ہوں
جو خط لکھا ہے تم نے وہ مرے بستر پہ رکھا ہے
اثر مشکل ہے کچھ کہنا بتاؤں میں تمہیں کیسے
ہمارا فیصلہ تو بس پس منظر پہ رکھا ہے