Asad Raza

اسد رضا

صحافی اور شاعر، طنزیہ و مزاحیہ شاعری بھی کی

Journalist and poet, known for his humour and satire

اسد رضا کی غزل

    سوچ کر مل ذرا توقف کر

    سوچ کر مل ذرا توقف کر یوں نہ ہر ایک سے تعارف کر زندگی خرچ کرنے والے سن موت پر بھی تو کچھ تصرف کر دین انسانیت کے جوہر سے اے خدا ہم کو بھی مشرف کر حد میں رہ کر ہی بے تکلف ہو ہو نہ محسوس یوں تکلف کر جھوٹ گو کامران ہوتا ہے اپنے سچ پر نہ اب تأسف کر چھپ کے جو بیچتے ہیں ملت کو ایسے ...

    مزید پڑھیے

    سینوں میں اگر ہوتی کچھ پیار کی گنجائش

    سینوں میں اگر ہوتی کچھ پیار کی گنجائش ہاتھوں میں نکلتی کیوں تلوار کی گنجائش پچھڑے ہوئے گاؤں کا شاید ہے وہ باشندہ جو شہر میں ڈھونڈے ہے ایثار کی گنجائش نفرت کی تعصب کی یوں رکھی گئیں اینٹیں پیدا ہوئی ذہنوں میں دیوار کی گنجائش پاکیزگی روحوں کی نیلام ہوئی جب سے جسموں میں نکل آئی ...

    مزید پڑھیے

    راہیں دھواں دھواں ہیں سفر گرد گرد ہے

    راہیں دھواں دھواں ہیں سفر گرد گرد ہے یہ منزل مراد تو بس درد درد ہے اپنے پڑوسیوں کو بھی پہچانتا نہیں محصور اپنے خول میں اب فرد فرد ہے اس موسم بہار میں اے باغباں بتا چہرہ ہر ایک پھول کا کیوں زرد زرد ہے لفاظیوں کا گرم ہے بازار کس قدر دست عمل ہمارا مگر سرد سرد ہے کیسا تضاد شاخ ...

    مزید پڑھیے

    بستر مرگ پر زندگی کی طلب

    بستر مرگ پر زندگی کی طلب جیسے ظلمت میں ہو روشنی کی طلب کل تلک کمتری جن کی تقدیر تھی آج ان کو ہوئی برتری کی طلب عمر بھر اپنی پوجا کراتا رہا اب ہوئی اس کو بھی بندگی کی طلب چیختے تھے بہت ہم ہر اک بات پر ہو گئی اب مگر خامشی کی طلب پیاس دنیا کی جس نے بجھائی سدا اس سمندر کو ہے تشنگی کی ...

    مزید پڑھیے

    ہونٹوں پہ اس کے جنبش انکار بھی نہیں

    ہونٹوں پہ اس کے جنبش انکار بھی نہیں آنکھوں میں کوئی شوخیٔ اقرار بھی نہیں بستی میں کوئی مونس و غم خوار بھی نہیں غالبؔ کا ہائے کوئی طرف دار بھی نہیں کشتی بری طرح ہے بھنور میں پھنسی ہوئی لیکن ہمارے ہاتھ میں پتوار بھی نہیں ان کو سزائیں دی ہیں زمانے نے بارہا ملزم بھی جو نہیں ہیں ...

    مزید پڑھیے

    ہم سے دیوانوں کو عصری آگہی ڈستی رہی

    ہم سے دیوانوں کو عصری آگہی ڈستی رہی کھوکھلی تہذیب کی فرزانگی ڈستی رہی شعلۂ نفرت تو بھڑکا ایک لمحہ کے لیے مدتوں پھر شہر کو اک تیرگی ڈستی رہی موت کی ناگن سے اب ہرگز وہ ڈر سکتا نہیں جس کو ساری عمر خود یہ زندگی ڈستی رہی میں نہ جانے کتنے جنموں کا ہوں پیاسا دوستو رہ کے دریا میں بھی ...

    مزید پڑھیے

    کسی کسی کو ہی آتے ہیں راس افسانے

    کسی کسی کو ہی آتے ہیں راس افسانے ہمیں تو کرتے ہیں اکثر اداس افسانے نئے زمانے کے ان میں کئی اشارے ہیں بہت پرانے ہیں گو میرے پاس افسانے خوشی کے واسطے جس نے گلے لگایا انہیں اسی کو چھوڑ گئے محو یاس افسانے جنہیں شعور سے عاری قرار دیتے تھے وہی بنے ہیں قیافہ شناس افسانے لباس والے ...

    مزید پڑھیے

    ہر آہ غم دل کی غماز نہیں ہوتی

    ہر آہ غم دل کی غماز نہیں ہوتی اور واہ مسرت کا آغاز نہیں ہوتی جو روک نہیں پاتی اشکوں کی روانی کو وہ آنکھ غم دل کی ہم راز نہیں ہوتی ہر اشک شہنشاہی اک تاج نہیں بنتا ہر ملکہ زمانے میں ممتازؔ نہیں ہوتی ملتی ہے خموشی سے ظالم کو سزا یارو اللہ کی لاٹھی میں آواز نہیں ہوتی اک ٹھوس حقیقت ...

    مزید پڑھیے

    ایک بیوہ کی آس لگتی ہے

    ایک بیوہ کی آس لگتی ہے زندگی کیوں اداس لگتی ہے ہر طرف چھائی گھور تاریکی روشنی کی اساس لگتی ہے پی رہا ہوں ہنوز اشک غم بحر غم کو بھی پیاس لگتی ہے لاکھ پہناؤ دوستی کی قبا دشمنی بے لباس لگتی ہے موت کے سامنے حیات اسدؔ صورت التماس لگتی ہے

    مزید پڑھیے