ہونٹوں پہ اس کے جنبش انکار بھی نہیں

ہونٹوں پہ اس کے جنبش انکار بھی نہیں
آنکھوں میں کوئی شوخیٔ اقرار بھی نہیں


بستی میں کوئی مونس و غم خوار بھی نہیں
غالبؔ کا ہائے کوئی طرف دار بھی نہیں


کشتی بری طرح ہے بھنور میں پھنسی ہوئی
لیکن ہمارے ہاتھ میں پتوار بھی نہیں


ان کو سزائیں دی ہیں زمانے نے بارہا
ملزم بھی جو نہیں ہیں گناہ گار بھی نہیں


تحفہ عجب دیا ہے چمن کو بہار نے
پھولوں کا ذکر کیا ہے کوئی خار بھی نہیں


شاید تعلقات میں اب انجماد ہے
پہلی سی بات بات پہ تکرار بھی نہیں


شو پیس تو بنا دیا حالات نے اسدؔ
کوئی مگر ہمارا خریدار بھی نہیں