ایک بیوہ کی آس لگتی ہے

ایک بیوہ کی آس لگتی ہے
زندگی کیوں اداس لگتی ہے


ہر طرف چھائی گھور تاریکی
روشنی کی اساس لگتی ہے


پی رہا ہوں ہنوز اشک غم
بحر غم کو بھی پیاس لگتی ہے


لاکھ پہناؤ دوستی کی قبا
دشمنی بے لباس لگتی ہے


موت کے سامنے حیات اسدؔ
صورت التماس لگتی ہے