بستر مرگ پر زندگی کی طلب
بستر مرگ پر زندگی کی طلب
جیسے ظلمت میں ہو روشنی کی طلب
کل تلک کمتری جن کی تقدیر تھی
آج ان کو ہوئی برتری کی طلب
عمر بھر اپنی پوجا کراتا رہا
اب ہوئی اس کو بھی بندگی کی طلب
چیختے تھے بہت ہم ہر اک بات پر
ہو گئی اب مگر خامشی کی طلب
پیاس دنیا کی جس نے بجھائی سدا
اس سمندر کو ہے تشنگی کی طلب
چار پیسے جو آئے ذرا ہاتھ میں
ان کو بھی ہو گئی رہبری کی طلب
دیکھ کر یہ نمائش کی دنیا اسدؔ
ہم نے محسوس کی سادگی کی طلب