وہ آدمی جو تری آرزو میں مرتا ہے

وہ آدمی جو تری آرزو میں مرتا ہے
وہ تجھ سے پیار نہیں خود سے عشق کرتا ہے


فضا میں خوف کے پرچم بلند ہوتے ہیں
سواد شام سے لشکر کوئی گزرتا ہے


مری زمیں کے بلاوے غضب کے ہیں لیکن
کوئی جنوں مرے پر رات دن کترتا ہے


میں اپنے آپ کو اب کس کے چاک پر رکھوں
شکستہ ظرف دوبارہ کہیں سنورتا ہے


لگے ہوئے ہیں جہاں پر وصال کے خیمے
ادھر سے ہجر کا رہوار بھی گزرتا ہے