Asad Badayuni

اسعد بدایونی

ممتاز ما بعد جدید شاعر، رسالہ’دائرے‘ کے مدیر

Leading poet who taught Urdu literature at AMU, Aligarh, also published a literary magazine 'Daairay'

اسعد بدایونی کی غزل

    شب سیاہ سے جو استفادہ کرتے ہیں

    شب سیاہ سے جو استفادہ کرتے ہیں وہی چراغوں کا ماتم زیادہ کرتے ہیں دلوں کا درد کہاں جام میں اترتا ہے حریف وقت کو ہم غرق بادہ کرتے ہیں پرانی تلخیاں دامن بہت پکڑتی ہیں کبھی نیا جو کوئی ہم ارادہ کرتے ہیں پڑی تھی دل کی زمیں جانے کب سے بے مصرف اب اس میں یادوں کے بت ایستادہ کرتے ...

    مزید پڑھیے

    کچھ لوگ جی رہے ہیں خدا کے بغیر بھی

    کچھ لوگ جی رہے ہیں خدا کے بغیر بھی سناٹے گونجتے ہیں صدا کے بغیر بھی مٹی کی مملکت میں نمو کی زکوٰۃ پر زندہ ہیں پیڑ آب و ہوا کے بغیر بھی یہ نفرتوں کے زرد الاؤ نہ ہوں گے سرد پھیلے گی آگ تیز ہوا کے بغیر بھی ربط و تعلقات کا موسم نہیں کوئی بارش ہوئی ہے کالی گھٹا کے بغیر بھی دنیا کے ...

    مزید پڑھیے

    ہجر کے موسم میں یادیں وصل کی راتوں میں ہیں

    ہجر کے موسم میں یادیں وصل کی راتوں میں ہیں کچھ گلے شکوے یقیناً سب مناجاتوں میں ہیں دھوپ کے موسم میں تھے پایاب دریا سب مگر کیسے کیسے خشک منظر اب کے برساتوں میں ہیں ہیں معطر اب بھی شامیں تیری خوشبو کے طفیل ضو فشاں جگنو ترے اب بھی مری راتوں میں ہیں تشنگی صدیوں کی قربت سے نہ بجھ ...

    مزید پڑھیے

    جسے نہ میری اداسی کا کچھ خیال آیا

    جسے نہ میری اداسی کا کچھ خیال آیا میں اس کے حسن پہ اک روز خاک ڈال آیا یہ عشق خوب رہا باوجود ملنے کے نہ درمیان کبھی لمحۂ وصال آیا اشارہ کرنے لگے ہیں بھنور کے ہاتھ ہمیں خوشا کہ پھر دل دریا میں اشتعال آیا مروتوں کے ثمر داغ دار ہونے لگے محبتوں کے شجر تجھ پہ کیا زوال آیا حسین شکل کو ...

    مزید پڑھیے

    ہر اک یقین کو ہم نے گماں بنا دیا ہے

    ہر اک یقین کو ہم نے گماں بنا دیا ہے تھے جس زمیں پہ اسے آسماں بنا دیا ہے ہم ایسے خانہ خرابوں سے اور کیا بنتا کسی سے سلسلۂ ربط جاں بنا دیا ہے ہمارے شعر ہمارے خیال کچھ یوں ہیں خلا میں جیسے کسی نے مکاں بنا دیا ہے محبتوں کے امینوں کی ہیں وہ آوازیں کہ جن کو خلق نے شور سگاں بنا دیا ...

    مزید پڑھیے

    دل و نظر کو لہو میں ڈبونا آتا ہے

    دل و نظر کو لہو میں ڈبونا آتا ہے نہ اب ہنسی ہمیں آئے نہ رونا آتا ہے ہوا کے ہاتھ چراغوں سے کھیلتے ہیں یوں ہی کہ ہاتھ بچوں کے جیسے کھلونا آتا ہے ہم اہل زر کے دروں پر قدم نہیں رکھتے گدائے خاک ہیں مٹی پہ سونا آتا ہے خمار در بدری چین سے نہ رہنے دے جو خواب آتا ہے اکثر سلونا آتا ہے غزل ...

    مزید پڑھیے

    ابھی ہوس کے ہزاروں بہانے زندہ ہیں

    ابھی ہوس کے ہزاروں بہانے زندہ ہیں نئی رتوں میں شجر سب پرانے زندہ ہیں فضائے مہر و محبت کی داغداری کو دھواں اگلتے ہوئے کارخانے زندہ ہیں مجاوران تمنا تو مر گئے کب کے درون جسم کئی آستانے زندہ ہیں جواز کوئی نہیں ہجرتوں سے بچنے کا ہم اس دیار میں کس کے بہانے زندہ ہیں عجب طلسم ہے ...

    مزید پڑھیے

    حریف کوئی نہیں دوسرا بڑا میرا

    حریف کوئی نہیں دوسرا بڑا میرا سدا مجھی سے رہا ہے مقابلہ میرا مرے بدن پہ زمانوں کی زنگ ہے لیکن میں کیسے دیکھوں شکستہ ہے آئنہ میرا مرے خلاف زمانہ بھی ہے زمین بھی ہے منافقت کے محاذوں پہ مورچہ میرا میں کشتیوں کو جلانے سے خوف کھاتا نہیں زمانہ دیکھ چکا ہے یہ حوصلہ میرا مرے سوال سے ...

    مزید پڑھیے

    سیل گریہ کا سینے سے رشتہ بہت

    سیل گریہ کا سینے سے رشتہ بہت یعنی ہیں اس خرابے میں دریا بہت میں نے اس نام سے شام رنگین کی میں نے اس کے حوالے سے سوچا بہت دیکھنے کے لیے سارا عالم بھی کم چاہنے کے لیے ایک چہرا بہت اس سے آگے تو بس خواب ہی خواب تھے میں نے اس کو مجھے اس نے دیکھا بہت میں بھی الجھا ہوں منظر کے نیرنگ ...

    مزید پڑھیے

    وہ لوگ بھی کیسے لوگ ہیں جو کوئی بات فضول نہیں کرتے

    وہ لوگ بھی کیسے لوگ ہیں جو کوئی بات فضول نہیں کرتے یہ سارے قصے جھوٹے ہیں ہم ان کو قبول نہیں کرتے تمہیں علم نہیں ہے یقین کرو میں قریب سے جانتا ہوں ان کو کچھ سوداگر ایسے بھی ہیں جو قرض وصول نہیں کرتے میں پتھر لے کر بیٹھا ہوں اور اس بستی کے دانا اب کیوں کار شیشہ گری کر کے مجھ کو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 5