Arzoo Saharanpuri

آرزو سہارنپوری

آرزو سہارنپوری کی غزل

    شراب و شیشہ و ساغر سبو و پیمانہ

    شراب و شیشہ و ساغر سبو و پیمانہ فدائے نیم نگاہی تمام مے خانہ قدم قدم پہ مشیت نے پاؤں چومے ہیں یہ کس مقام سے گزرا ہے تیرا دیوانہ کبھی کبھی تو حرم کیا ہے بت کدہ کیا ہے میں تیرے در سے بھی گزرا ہوں بے نیازانہ اسی کے دم سے ہے روشن حریم کعبۂ دل خدا کرے کہ نہ گل ہو چراغ بت خانہ جمال ...

    مزید پڑھیے

    نہ پوچھ راہ طلب میں کدھر سے گزرا ہوں

    نہ پوچھ راہ طلب میں کدھر سے گزرا ہوں ترے ہی پاس سے گزرا جدھر سے گزرا ہوں خدا گواہ کہ دل میں خلوص غم لے کر بہ احترام شب بے سحر سے گزرا ہوں تری نظر کو بھی اب تک خبر نہیں اے دوست اس احتیاط سے تیری نظر سے گزرا ہوں ترے خیال کو بھی ٹھیس لگ نہ جائے کہیں بہت سنبھل کے غم معتبر سے گزرا ...

    مزید پڑھیے

    ہوش نہیں ہے دوش کا جلوہ گہہ نماز میں

    ہوش نہیں ہے دوش کا جلوہ گہہ نماز میں سر ہی کا کچھ پتہ نہیں سجدۂ بے نیاز میں صبح ازل بھی بے نقاب جس کی نگاہ ناز میں ہائے وہ صورت جمیل بت کدۂ مجاز میں عشق کی زندگی کا راز گم ہے شکست ساز میں عشرت روح ڈھونڈئیے شورش جاں گداز میں جز دل عشق معتبر اور کو اس کی کیا خبر عالم رنگ رنگ ہے ...

    مزید پڑھیے

    کیا قیامت کا ہے بازار ترے کوچے میں

    کیا قیامت کا ہے بازار ترے کوچے میں بکنے آتے ہیں خریدار ترے کوچے میں تو وہ عیسیٰ ہے کہ اے نبض شناس کونین ابن مریم بھی ہے بیمار ترے کوچے میں اذن دیدار تو ہے عام مگر کیا کہیے چشم بینا بھی ہے بے کار ترے کوچے میں جس نے دیکھا ہو نظر بھر کے ترا حسن تمام کوئی ایسا بھی ہے اے یار ترے کوچے ...

    مزید پڑھیے

    عشق آئینۂ حیرت کے سوا کچھ بھی نہیں

    عشق آئینۂ حیرت کے سوا کچھ بھی نہیں میری صورت تری صورت کے سوا کچھ بھی نہیں حسن کہتے ہیں جسے عشق و محبت والے جوہر چشم بصیرت کے سوا کچھ بھی نہیں دولت قرب ہو یا نعمت عرفان جمال صرف اک اشک ندامت کے سوا کچھ بھی نہیں ہجر ہو وصل ہو اے دوست عدم ہو کہ وجود اک تری چشم عنایت کے سوا کچھ بھی ...

    مزید پڑھیے

    روح میں تازگی نہیں قلب میں روشنی نہیں

    روح میں تازگی نہیں قلب میں روشنی نہیں تیری قسم ترے بغیر زندگی زندگی نہیں تذکرۂ خدا نہیں سلسلۂ خودی نہیں اب میں وہاں ہوں جس جگہ میرے سوا کوئی نہیں سجدۂ دوست کے لئے چاہئے جذب بے خودی بندگی اور بہ قید ہوش کفر ہے بندگی نہیں سست قدم تھے مہر و ماہ رہ گئے مثل گرد راہ منزل عشق میں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2