شراب و شیشہ و ساغر سبو و پیمانہ

شراب و شیشہ و ساغر سبو و پیمانہ
فدائے نیم نگاہی تمام مے خانہ


قدم قدم پہ مشیت نے پاؤں چومے ہیں
یہ کس مقام سے گزرا ہے تیرا دیوانہ


کبھی کبھی تو حرم کیا ہے بت کدہ کیا ہے
میں تیرے در سے بھی گزرا ہوں بے نیازانہ


اسی کے دم سے ہے روشن حریم کعبۂ دل
خدا کرے کہ نہ گل ہو چراغ بت خانہ


جمال یار جھلکتا ہے آرزوؔ جس میں
مری غزل ہے وہ رنگین آئنہ خانہ