روح میں تازگی نہیں قلب میں روشنی نہیں
روح میں تازگی نہیں قلب میں روشنی نہیں
تیری قسم ترے بغیر زندگی زندگی نہیں
تذکرۂ خدا نہیں سلسلۂ خودی نہیں
اب میں وہاں ہوں جس جگہ میرے سوا کوئی نہیں
سجدۂ دوست کے لئے چاہئے جذب بے خودی
بندگی اور بہ قید ہوش کفر ہے بندگی نہیں
سست قدم تھے مہر و ماہ رہ گئے مثل گرد راہ
منزل عشق میں مرا ہم سفر اب کوئی نہیں
ذوق طلب ہے حاصل حسن تمام کائنات
طالب دید بھی تو ہو جلوؤں کی کچھ کمی نہیں
نغمۂ دل پہ جھومنا پائے صنم کو چومنا
زاہد خشک تر ابھی واقف بندگی نہیں
آرزوؔ دل کے ساتھ ساتھ ہوش و خرد بھی پھونک دے
عشق میں آرزوئے عشق شان قلندری نہیں