نہ پوچھ راہ طلب میں کدھر سے گزرا ہوں
نہ پوچھ راہ طلب میں کدھر سے گزرا ہوں
ترے ہی پاس سے گزرا جدھر سے گزرا ہوں
خدا گواہ کہ دل میں خلوص غم لے کر
بہ احترام شب بے سحر سے گزرا ہوں
تری نظر کو بھی اب تک خبر نہیں اے دوست
اس احتیاط سے تیری نظر سے گزرا ہوں
ترے خیال کو بھی ٹھیس لگ نہ جائے کہیں
بہت سنبھل کے غم معتبر سے گزرا ہوں
کبھی کبھی تو اک ایسا مقام آیا ہے
میں حسن بن کے خود اپنی نظر سے گزرا ہوں
بس اس قدر ہے مری شرح سرگزشت حیات
کسی کی اک نگہ مختصر سے گزرا ہوں
کسے بتاؤں کیا اے آرزوؔ میں کتنی بار
خود ان کے ذہن میں ان کی نظر سے گزرا ہوں