Arshad Minangari

ارشد مینا نگری

ارشد مینا نگری کی غزل

    نفرت کے اندھیروں کو مٹانے کے لئے آ

    نفرت کے اندھیروں کو مٹانے کے لئے آ آ شمع محبت کو جلانے کے لئے آ بے باک ہوا جاتا ہے اب درد جدائی ابھرے ہوئے زخموں کو دبانے کے لئے آ کب تک میں سنبھالوں تری یادوں کی امانت یہ بار گراں دل سے ہٹانے کے لئے آ یادوں کے دریچوں میں ترا روپ ہے لیکن اب ہجر کا احساس بھلانے کے لئے آ احساس کے ...

    مزید پڑھیے

    حسن تازہ کنول کے جیسا ہے

    حسن تازہ کنول کے جیسا ہے اور چہرہ غزل کے جیسا ہے رنگ ٹوٹی ہوئی جوانی کا ایک اجڑے محل کے جیسا ہے اہل محنت کی محنتوں کا صلہ آج مٹی کے پھل کے جیسا ہے ظلم پر آہ بھی نہیں کرتے اپنا جینا اجل کے جیسا ہے وہ زمانہ تھا امن کا دشمن یہ زمانہ بھی کل کے جیسا ہے کام ہوتا ہے بات پر اس کی عزم اس ...

    مزید پڑھیے

    صبر کر دل ناداں کس لئے تو روتا ہے

    صبر کر دل ناداں کس لئے تو روتا ہے بے وفا زمانے میں کون کس کا ہوتا ہے جس کو میں نے بخشے ہیں پھول شادمانی کے اب وہی مرے دل میں خار غم چبھوتا ہے نا مراد اشکوں سے تر تو ہو گیا دامن ہاں مگر لہو دل کا دل کے زخم دھوتا ہے کارگاہ ہستی میں مطمئن نہیں کوئی دیکھ کر ہر اک صورت آئنہ بھی روتا ...

    مزید پڑھیے

    اس کے رخسار شبنمی جیسے

    اس کے رخسار شبنمی جیسے روشنی پر ہے روشنی جیسے کون یہ بے نقاب آیا ہے رک گئی چاند کی ہنسی جیسے ان کے عہد شباب کا منظر گلستاں پر شگفتگی جیسے ان کا چہرہ ہنسی کے عالم میں پھول پر برق گر گئی جیسے ان کا انداز گفتگو ایسا آبشاروں کی نغمگی جیسے ان کا عہد شباب اے ارشدؔ میری رنگین شاعری ...

    مزید پڑھیے

    بچ نکلنا کیا اختیار میں ہے

    بچ نکلنا کیا اختیار میں ہے زندگی موت کے حصار میں ہے آرزو اور میرے دل کی بساط ایک شعلہ سا ریگ زار میں ہے کتنے سورج نگل گئی ظلمت آس کا دیپ کس شمار میں ہے جو خزاں میں بھی مل نہیں سکتی وہ اداسی بھری بہار میں ہے نفرتوں کو بھی جس سے نفرت ہو ایسی نفرت تمہارے پیار میں ہے بے قراری میں ...

    مزید پڑھیے

    وہ ملے بھی تو اجنبی جیسے

    وہ ملے بھی تو اجنبی جیسے مجھ کو دیکھا نہیں کبھی جیسے جی رہا ہے جو صرف جینے کو موت ہے اس کی زندگی جیسے علم شامل ہے ہر جہالت میں ہے اندھیرا یہ روشنی جیسے اس قدر زعم چند سانسوں پر خود خدا ہے یہ آدمی جیسے آج تک بھی ملی نہیں منزل میری رہبر ہے گمرہی جیسے دشمنوں کا بھی ساتھ دیتا ...

    مزید پڑھیے

    اب کے تو گلستاں میں وہ دور بہار آیا

    اب کے تو گلستاں میں وہ دور بہار آیا پھولوں پہ اداسی ہے کانٹوں پہ نکھار آیا وہ اپنے مقدر پہ روتا ہی رہا برسوں اوروں کا مقدر جو پل بھر میں سنوار آیا کیا چال چلی تو نے کیا جال بچھایا ہے صیاد مبارک ہو گھر بیٹھے شکار آیا جس جیت کی خاطر میں بیدار رہا اب تک اک لمحہ کی غفلت میں وہ جیت ...

    مزید پڑھیے