بچ نکلنا کیا اختیار میں ہے

بچ نکلنا کیا اختیار میں ہے
زندگی موت کے حصار میں ہے


آرزو اور میرے دل کی بساط
ایک شعلہ سا ریگ زار میں ہے


کتنے سورج نگل گئی ظلمت
آس کا دیپ کس شمار میں ہے


جو خزاں میں بھی مل نہیں سکتی
وہ اداسی بھری بہار میں ہے


نفرتوں کو بھی جس سے نفرت ہو
ایسی نفرت تمہارے پیار میں ہے


بے قراری میں تھا قرار مگر
آج تو بیکلی قرار میں ہے


حوصلوں کی نگاہ سے دیکھو
کامرانی کا راز ہار میں ہے


وہ بھی تم نے دیا نہیں ہم کو
جو تمہارے ہی اختیار میں ہے


نا مرادی کی حد ہے یہ ارشدؔ
جیت بھی اپنی آج ہار میں ہے