صبر کر دل ناداں کس لئے تو روتا ہے

صبر کر دل ناداں کس لئے تو روتا ہے
بے وفا زمانے میں کون کس کا ہوتا ہے


جس کو میں نے بخشے ہیں پھول شادمانی کے
اب وہی مرے دل میں خار غم چبھوتا ہے


نا مراد اشکوں سے تر تو ہو گیا دامن
ہاں مگر لہو دل کا دل کے زخم دھوتا ہے


کارگاہ ہستی میں مطمئن نہیں کوئی
دیکھ کر ہر اک صورت آئنہ بھی روتا ہے


وقت یوں اتر آیا ظلم کے طریقے پر
روز خون انساں سے آستیں بھگوتا ہے


جو بھی ایماں رکھتا ہے مصلحت پرستی پر
گلشن محبت میں غم کے بیج بوتا ہے


آئنہ حقیقت کا رکھ کے سامنے دیکھے
آدمی زمانے میں خود وقار کھوتا ہے


اس قدر بڑھی ارشدؔ زندگی کی حیرانی
آج کل ہر اک انساں روتے روتے سوتا ہے