اس کے رخسار شبنمی جیسے

اس کے رخسار شبنمی جیسے
روشنی پر ہے روشنی جیسے


کون یہ بے نقاب آیا ہے
رک گئی چاند کی ہنسی جیسے


ان کے عہد شباب کا منظر
گلستاں پر شگفتگی جیسے


ان کا چہرہ ہنسی کے عالم میں
پھول پر برق گر گئی جیسے


ان کا انداز گفتگو ایسا
آبشاروں کی نغمگی جیسے


ان کا عہد شباب اے ارشدؔ
میری رنگین شاعری جیسے