حسن تازہ کنول کے جیسا ہے
حسن تازہ کنول کے جیسا ہے
اور چہرہ غزل کے جیسا ہے
رنگ ٹوٹی ہوئی جوانی کا
ایک اجڑے محل کے جیسا ہے
اہل محنت کی محنتوں کا صلہ
آج مٹی کے پھل کے جیسا ہے
ظلم پر آہ بھی نہیں کرتے
اپنا جینا اجل کے جیسا ہے
وہ زمانہ تھا امن کا دشمن
یہ زمانہ بھی کل کے جیسا ہے
کام ہوتا ہے بات پر اس کی
عزم اس کا عمل کے جیسا ہے
اپنے ماحول کی غلاظت میں
وہ شگفتہ کنول کے جیسا ہے
آج کے رہبروں کا ہر وعدہ
دیکھنا گزرے پل کے جیسا ہے
ملک میں کیا فسادیوں کا حل
آج کینسر کے حل کے جیسا ہے
میری الجھن کا سلسلہ شاید
تیری زلفوں کے بل کے جیسا ہے
کس کو منزل ملے گی اے ارشدؔ
عزم کس کا عمل کے جیسا ہے