تمام شہر کی آنکھوں کا ماہتاب ہوا
تمام شہر کی آنکھوں کا ماہتاب ہوا
میں جب سے اس کی نگاہوں میں انتخاب ہوا
ہوا کے کاندھوں نے پہنچایا آسمانوں تک
میں برگ سبز تھا سوکھا تو آفتاب ہوا
پلٹ کے دیکھوں تو مجھ کو سزائیں دیتا ہے
عجب ستارہ رہ غم میں ہم رکاب ہوا
یوں قوس چشم میں آیا وہ بارشوں کی طرح
کہ حرف دید کئی رنگوں کی کتاب ہوا
پگھل کے آ گئی ساری اداسی لفظوں میں
وفور غم مرے آئینے میں حباب ہوا
میں اپنی خواہشیں گم کر کے مل گیا اس کو
خوشا وہ میری محبت میں کامیاب ہوا