نظر کے سامنے صحرائے بے پناہی ہے

نظر کے سامنے صحرائے بے پناہی ہے
قریب و دور مرے بخت کی سیاہی ہے


افق کے پار کبھی دیکھنے نہیں دیتی
شریک راہ امیدوں کی کم نگاہی ہے


بھرا پڑا تھا گھر اس کا خوشی کے سیلے سے
یہ کیا ہوا کہ وہ اب راستے کا راہی ہے


وہ ذہن ہو تو حریفوں کی چال بھی سیکھیں
ہمارے پاس فقط عذر بے گناہی ہے


اکھڑتے قدموں کی آواز مجھ سے کہتی ہے
شکست ہی نہیں یہ دائمی تباہی ہے


عدد کمیں میں ہے آگے یہ کیا پتا اس کو
رہ فرار میں ہارا ہوا سپاہی ہے