نارسائی کی ہنسی خود ہی اڑاتے کیوں ہو
نارسائی کی ہنسی خود ہی اڑاتے کیوں ہو
ہاتھ خالی ہے تو بازار میں آتے کیوں ہو
اب بھی چاہو تو جمی برف پگھل سکتی ہے
اختلافات کو بنیاد بناتے کیوں ہو
وہ سمجھنے پہ ہی آمادہ نہیں ہے تو اسے
اپنے احساس کا آئینہ دکھاتے کیوں ہو
کل ترس جاؤ گے آنکھوں کی شناسائی کو
خود کو لفظوں کے لبادے میں چھپاتے کیوں ہو
عافیت اب تو اسی میں ہے کہ پتھر بن جاؤ
سوگ ٹوٹے ہوئے رشتوں کا مناتے کیوں ہو
وہ گل تازہ کسی گھر کی ہے زینت ارمانؔ
اس کی خوشبو سے خیالوں کو بساتے کیوں ہو