جو گم گشتہ ہے اس کی ذات کیا ہے

جو گم گشتہ ہے اس کی ذات کیا ہے
غریب شہر کی اوقات کیا ہے


سروں پر سایۂ آفات کیا ہے
جو کٹتی ہی نہیں وہ رات کیا ہے


نہ ہونے اور ہونے کی حقیقت
سوال نفی و اثبات کیا ہے


جمی ہے گرد کی تہہ بستیوں پر
ہوا کے ہاتھ میں سوغات کیا ہے


حقارت میں بجھے کچھ تیر و نشتر
مرے کشکول میں خیرات کیا ہے


بجھا پائیں نہ ان کو اوڑھ پائیں
گذشتہ موسموں کی بات کیا ہے


کبھی دیکھا نہ اس کو بار آور
ہماری فصل امکانات کیا ہے


ورق پر کیوں اترتے ہیں شرارے
لہو میں شعلۂ جذبات کیا ہے


ابھرتے ڈوبتے رہتے ہیں سائے
تماشا ایک سا دن رات کیا ہے